ColumnImtiaz Aasi

انتخابات ہی معاشی مسائل کا حل ہیں؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ہماراملک اس وقت عجیب صورت حال کا شکار ہے۔دو صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئینی طور پر نوے روز میں ضمنی الیکشن ہونا ضروری ہیں بعض سیاسی رہنما آئین کی اس شق کی نئی نئی تاویلیں نکال رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آئین میں نوے روز میںالیکشن کا لکھا ہے کہیں یہ نہیں لکھا مقررہ مدت میں الیکشن نہ ہوا تو کیا ہوگا؟الیکشن کمیشن نے صوبوں کے گورنروں کو الیکشن کی تواریخ دے دی ہے لیکن حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کا نیا شوشاچھوڑا ہے۔خیبر پختونخوا کے گورنر کا کہنا ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن اور ادارے نہیں کہیں گے الیکشن نہیں ہوگا بلکہ ان کا الیکشن کے التواء کیلئے ایک عذر یہ ہے کہ قبائلی عمائدین نے سابقہ فاٹا کے حالات کے پیش نظر انہیں الیکشن ملتوی کرنے کو کہا ہے۔پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائز ر مریم نواز کو اپنی جماعت کے بکھرے ہوئے ووٹ بنک کو یکسو کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے نواز شریف نے انہیں اس مقصد کیلئے خصوصی ٹاسک دیا ہے اب دیکھتے ہیں وہ اپنے اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔ مریم نواز عوامی جلسوں سے خطاب کریں گی مگر وہ مہنگائی کے مارے عوام اور اپنے خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات کی واپسی بارے عوام کو کیسے مطمئن کر سکیں گی؟پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنی ناکامیوں کا ملبہ تحریک انصاف پر ڈالنے کی لاکھ کوشش کریں عوام اتنے بیوقوف نہیں جو مریم نواز کی تقاریر سے متاثر ہو کر مسلم لیگ نون کو ووٹ دینے کیلئے راغب ہو ں گے۔ نواز شریف نے مفتاح اسماعیل کو چلتا کرکے اپنے قریبی عزیز اسحاق ڈار کو جس طمطراق سے وزارت خزانہ کی ذمہ داری دی اس میں وہ کلی طور پر ناکام ٹھہرے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے خیبر پختونخوا کے جلسہ میں اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اب عوام کو سستے آٹے کے حصول کیلئے اپنے کپڑے بیچانا ہوں گے۔
بدقسمتی سے عوام کو ایسے سیاست دانوں سے واسطہ پڑا ہے جن کا اوڑھنا بچھونا جھوٹ پر مبنی ہے۔ تعجب ہے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے زرمبادلہ کے ذخائر میں حد درجہ کمی واقع ہو چکی ہے تو اسحاق ڈار کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ تھا جو وہ وطن آکر معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔پی ایم ایل نون نے اسحاق ڈار کو خزانے کی وزارت دے کر الٹا اپنے کئی سنیئر رہنمائوں کو ناراض کر لیا ہے جنہیں راضی کرنے کا نیا ٹاسک مریم نواز کو دیا گیا ہے اب دیکھتے ہیں مریم نواز ناراض رہنمائوں کو راضی کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔موجودہ سیاسی اور خراب معاشی حالات میں ہمیں شاہد خاقان عباسی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور قوم کی بہتری کیلئے یکجا ہونے کی بہت ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں باوا آدم نرالا ہے، عمران خان حکمران جماعت سے بات چیت کیلئے راضی نہیں اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کواپنے اقتدار کو طوالت دینے کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں۔عمران خان نے قومی اسمبلی کی 33 نشستوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے جو اس امر کا غماز ہے انہیں عوام سے قوی امید ہے وہ انہیں کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔ درحقیقت مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ستائے عوام اب بھی عمران خان کو مسیحا سمجھتے ہیں انہیں اس بات کاپورا یقین ہے عمران خان اقتدار میں آکر ملک اور عوام کو مشکلات کی دلدل سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔دراصل مسلم لیگ نون نے وزارت عظمیٰ سنبھال کر اپنی جماعت کو مشکل میں ڈال دیا ہے جب کہ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں مہنگائی اور معاشی حالات سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ان کے نزدیک مہنگائی اور معاشی حالات جانیں اور مسلم لیگ نون کے وزیراعظم جانیں۔
افسوناک پہلو یہ ہے سیاسی جماعتوں کو ماسوائے اقتدار کے کسی اور بات کا خیال نہیں۔سری لنکا ڈیفالٹ ہوا اس کے بعد آئی ایف ایم نے جو شرائط عائد کیں اللہ نہ کرے ہمارا ملک ایسی صورت حال کاشکار ہوا تو آئی ایف ایم سری لنکا جیسی شرائط عائد کرسکتا ہے جو ہماری مشکلات میں کئی گنا اضافہ کاباعث ہوگا ہمارا لمیہ یہ ہے برداشت کسی سیاست دان میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی کسی نے ذرا کوئی بیان دیا اس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔سیاست دانوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ اس طرح کے مقدمات سے الٹا حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فواد چودھری کو جس طریقہ سے کالا کپڑا منہ پر ڈال کر لے جایا جاتا ہے سیاست دانوں کیلئے باعث شرم و شرمندگی ہے۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ اب تو سیاست دان اخلاقیات کی حدیں عبور کر گئے ہیں۔ جب سے یہ حکومت اقتدارمیں آئی ہے غیر ضروری اخراجات کی کمی کیلئے کوئی پلان نہیں بنایا گیا ہے بس عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر اپنے اقتدار کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ جہاںتک عام انتخابات کی بات ہے انتخابات بھی تمام مسائل کا حل نہیں ہیں جب تک حکومت اپنے اخراجات میں کمی کو یقینی نہیں بنائے گی نہ تو آئی ایف ایم کے پیکیج سے مسائل حل ہوں گے اور نہیں عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا ملے گا۔ الحمداللہ ہمارا ملک دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت اور ستاتویں اچھی فوج کا حامل ہے اس کے باوجود ہمارے ملک کا معاشی گرادب میں پھنسا رہنا سیاسی جماعتوں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔
تاسف ہے آج کے سیاست دانوں کے قول وفعل میں تضاد ہے جس سے عوام کا سیاست دانوں سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔حیرت تو اس بات کی ہے عمران خان اور مریم نواز اپنی اپنی جماعتوں کے ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کیلئے کوشاں ہیں لیکن ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کسی کے پاس کوئی پلان نہیں جس سے ہما را ملک کسی طریقہ سے معاشی بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button