Editorial

مسائل اور ترجیحات !

 

عصر حاضر میں تعین کرنا ناممکن ہوچکا ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو درحقیقت کن حقیقی چیلنجز کا سامنا ہے اور کس بحران؍ مسئلے کو ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ جغرافیائی سرحدوں پر ہمیشہ خطرات منڈلاتے رہے ہیں جب وہ سرحد پار سے کچھ نہیں کرپاتے تودہشت گردی کی کارروائیوں کی صورت میں اندر سے نقب لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خارجی محاذ بھی ہمارے خلاف ہمہ وقت گرم رکھا جاتا ہے، جھوٹا پراپیگنڈا اور بڑی طاقتوں کے مفادات ہمارے خلاف اِس محاذ کو بند ہونے ہی نہیں دیتے، کبھی ایف اے ٹی ایف اور کبھی ’’ڈو مور‘‘کی گردان اور کبھی تو واضح الفاظ میں دھمکیاں دی جاتی ہیں، ریاست نے پاک فوج اور اِس سے منسلک اداروں کو اِن محاذوں پر دشمن کو پسپا کرنے کی ذمہ داریاں سونپی ہیں جو وہ احسن طریقے سے ادا کررہے ہیں لہٰذا ہر پاکستانی برملا اعتراف کرتا ہے کہ وطن عزیز کو خارجی سے زیادہ داخلی طور پر خطرات اور چیلنجز درپیش ہیں بسا اوقات تو سیاسی قائدین بھی اِس پر لب کشائی کرتے ہیں مگر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب وہ برسراقتدار نہیں ہوتے اور اُن کی اُس وقت حزب اقتدار کے سامنے ایک نہیں چلتی لہٰذا سچ اُگلنے کا فریضہ جبھی ادا ہوتا ہے مگر اقتدار کی کایا پلٹ جائے تو وہ تمام وعدے، ارادے اور موقف بدل جاتے ہیں، پھر سابقین کو مورود الزام ٹھہرانے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے کیونکہ تب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں۔ ہم اِس وقت شدید ترین معاشی بحران کاسامنا کررہے ہیں جو ہمارے داخلی اور خارجی معاملات پر پوری طرح منفی اثرات مرتب کررہا ہے، بیرونی دنیا میں اب ہماری پہچان بلاشبہ یکسر بدل چکی ہے، خطے میں شاید چند ایک ممالک ہی ایسے ہوں گے جن کے ہم مقروض نہیں اور افسوس تو اِس رویے کا ہے کہ ہم قرض اوراپنے عوام کی حالت دکھاکر مدد مانگتے ہیں اور مدد ملنے پراپنی قوم سے اپنی صلاحیتوں کی داد بھی چاہتے ہیں۔ جب وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا اُن نامساعد حالات اور بے شمار چیلنجز کے باوجود ہم نے خلوص نیت کے ساتھ پیروں پر کھڑا ہونے کا عزم مصمم کیا لہٰذا ہماری عالمی سطح پر توقیر بھی بڑھی اور بڑی طاقتیں ہماری جانب متوجہ بھی ہوئیں مگر قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے جانثار رفقا کے بعد ہم نے اُسی جانب پیش قدمی شروع کردی جہاں سے ہم چلے تھے، اور درحقیقت ہم اب اُس درجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم قیام پاکستان سے قبل بھی نہ تھے، کس کو قصور وار ٹھہرائیں اور کون مانے گا کہ وطن عزیز کو اِن حالات تک پہنچانے کا وہ ذمہ دار ہے۔ معیشت دان کہہ رہے ہیں کہ ہم معاشی لحاظ سے خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں فوراً ہوش کے ناخن لیے جائیں وگرنہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ عوام کہتی ہے کہ تاریخ ساز مہنگائی نے جینے کے قابل نہیں چھوڑا، خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، سفر ِ زیست ہر نئے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہورہا ہے، جینا مشکل اور مرنا آسان معلوم ہوتا ہے، بے روزگاری پھیل رہی ہے لہٰذا نئے روزگار کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خوراک کی قیمتیں حیرت انگیز طور پر کئی گنا بڑھ چکی ہیں مگر خریدار کے سوا محسوس کرنے والا کوئی نہیں کہ غریب، بے روزگار اور سفید پوش کن حالات سے گذر رہے ہیں، آیا وہ پاکستانی پیٹ بھرکر روٹی کھابھی رہے ہیں یا نہیں جن کے آبائو اجداد نے قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، جائیدادیں چھوڑیں، عصمتیں لُٹادیں مگر کرہ ارض پر پاکستان کے نام سے آزاد مملکت قائم کرکے ہی سکون کا سانس لیا۔ عوام کہتی ہے کہ دو وقت کی روٹی اور روزگار سے بڑا اِس وقت کوئی مسئلہ نہیں، صحت عامہ کی ناپید سہولیات اور فقدان کا سامنے کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وطن عزیز میں صحت کے مسائل سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں، صنعت کار سراپا احتجاج ہیں، کوئی شعبہ کہتا ہے کہ گیس اور بجلی بے حد مہنگی ہے کیا بنائیں اور کیا بیرون ملک برآمد کریں، کوئی شعبہ کہتا ہے کہ مال بندرگاہ پر پڑا ہے لیکن ادائیگی کے لیے ڈالر ہی دستیاب نہیں ہیں تو کیا لائیں اور کیا بیچیں مگر جنہوں نے اِن پسے ہوئے پاکستانیوں اور تمام شعبوں کی آواز سننی ہے اور انہیں زندہ رہنے کے لیے جواز اور آسانیاں فراہم کرنی ہیں وہ بظاہر متوجہ نظر نہیں آتے کیونکہ مجموعی حالات سازگار ہونے کی بجائے دگرگوں ہورہے ہیںاور اِسی دوران اگر ہم ان کی جانب متوجہ ہوں جن سے ہمیں داد رسی کی توقع ہے اور جنہوں نے ازخود بیڑا اٹھایا ہے تو وہ ایسے مسائل میں اُلجھے نظر آتے ہیں جو عام پاکستانی کے مسائل نہیں ہیں لیکن اُن کا پسندیدہ مشغلہ اور ترجیحات میں سرفہرست ہیں۔ قوم بے سکونی اور افراتفری کی کیفیت سے گذر رہی ہے، ایک افواہ پوری قوم کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے کیونکہ ملکی حالات ہی ایسے ہیں مگر حاکم اور محکوم، محمود و ایاز کے مسائل اور ترجیحات یکسر مختلف ہیں، عوام کی اکثریت بے چینی کا شکار ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہے کہ اب کیا ہوگا، حالات بہتر ہوں گا بدتر، مہنگائی کم ہوگی یا بڑھے گی، روزگار ملے گا یا مواقعے مزید کم ہوں گے، اشیائے ضروریہ اور اشیائے خورونوش عام اورغریب پاکستانیوں کی دسترس میں ہوں گی یا مزید دور ہوں گی، بجلی کب سستی ہوگی، گیس کب دستیاب ہوگی، پٹرول کی قلت تو نہیں ہوگی، پٹرول نایاب ہوا تو کیسے سفر کریں گے، نظام زندگی رک تو نہیں جائے گا، ایسے بے شمار خدشات اور سوالات ہیں جن کے جواب عام پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں لیکن ہر کوئی نجومی کے طوطے کی طرح رٹے رٹائے جوابات دے کر پوچھنے والے کو نئی سمت دے دیتا ہے، عوام سے پوچھیں تو جواب ملتا ہے اِس سے مشکل وقت ہمارے آبائو اجداد نے بھی کبھی نہیں دیکھا تھا کہ اب اول تو وسائل نہیں، وسائل ہیں تو اشیائے ضروریہ کی دستیابی نہیں ہے، پہلے روزگار تھا اب بے روزگاری ہے۔ کاروباری طبقہ کہتا ہے کہ گیس اور بجلی اتنی مہنگی ہے کیا بنائیں اور کتنے کا بیچیں۔ ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ پہلے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ دوا کھائیں یا روٹی۔ غرضیکہ ہر شعبہ اپنے مسائل کو حقیقی اور بڑے مسائل گردان رہا ہے۔ مگر اِس دوران واحد ایک کام جو پوری توجہ اور ایمانداری سے ہورہا ہے، وہ ہے سیاست! پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کردی گئی ہیں اور نگران حکومتیں قائم ہونے کے باوجود دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے انعقاد کا کوئی اشارہ نہیں دیا جارہا۔ تحریک انصاف والے پہلے قومی اسمبلی سے اُٹھ آئے اور ایوان اتحادیوں کے حوالے کردیا، اب عام انتخابات کے نگران سیٹ اپ کے لیے دوبارہ ایوان کی جانب بڑھے تو اُن کے استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھجوائے جارہے ہیں تاکہ اُن حلقوں میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا جاسکے۔ پہلے تحریک انصاف والوں کا موقف تھا کہ استعفے منظور نہیں کیے جارہے مگر جواب ملتا تھا کہ انفرادی طور پر آئیں تبھی اِستعفے منظور ہوں گے لہٰذا جب تحریک انصاف والے نگران سیٹ اپ کے تعین کے لیے میدان میں واپس لوٹ آئے تو وہ آئینی ضرورت بھی ختم ہوگئی جو قریباً نو ماہ سے بارہا ظاہر کی جارہی تھی؟ اِن نو ماہ میں سیاسی قیادت نے جتنا وقت سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی کو دیا ہے اگر اتنی ہی توجہ ملک و قوم کو درپیش حقیقی چیلنجز پر دی جاتی تو یقیناً آج حالات ایسے نہ ہوتے جن سے ہم گذر رہے ہیں اور اگر اسی جوش و جذبے کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہا تو خدانخواستہ کہیں ہم آنے والے دنوں میں موجودہ حالات کو ہی بہتر حالات کےطور پر یاد نہ کررہے ہوں۔ سیاسی رہنمائوں کی گرفتاریاں، ایک دوسرے پر انتقامی سیاست کے سنگین الزامات کیا موجودہ حالات کا تقاضا ہیں؟ کیا سیاسی لوگوں سے جیلیں بھرنے سے ڈالر کی قیمت اور ڈی فالٹ کے خدشات ختم ہوجائیں گے۔ گیس، بجلی، پٹرول اوراناج سستا ہوجائے گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو اِن مشکل حالات کا ادراک کرنا چاہیے صرف دلجوئی کافی نہیں اب پوری توجہ اُن چیلنجز پر مرکوز کریں جو درحقیقت توجہ طلب چیلنجز ہیں اور جن کی وجہ سے ملک و قوم کئی لحاظ سے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ قومیں قربانیاں دے کر نام اور پہچان بناتی ہیں اِس کے لیے قائدین پہلے اپنا پیٹ کاٹتے ہیں لہٰذا اب عوام کے پیٹ مزید چاک کرنے کی بجائے مسائل کا حقیقی حل تلاش کریں اور اب بھی سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد کے لیے ایک پیج پر نہ آئی نہ تو یقیناً مسائل سنگین سے سنگین تر اور کم ہونے کی بجائے بڑھتے جائیں گے، لہٰذا سوچیں کہ عوام کس مشکل وقت سے گذر رہے ہیں اور انہیں کیسے اِن بحرانوں سے باہر نکالنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button