ColumnJabaar Ch

حلال معیشت .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

حکومت آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے اپنے لوگوں کو باقاعدہ ذبح کرنے پراُترآئی ہے۔ اس قدراُتاولاپن کہ اکتیس جنوری کا بھی انتظار نہ کیا اورپٹرول کی قیمت کل پینتیس روپے بڑھا دی۔ان کے جوازاپنی جگہ لیکن لوگ اپنے حکمران جوازسننے کے لیے نہیں چنتے۔لوگوں کو زندگی میں آسانیاں، مہنگائی قابل برداشت حد تک اورروزگار کی فراہمی درکار ہوتی ہے اگر یہ حکومت مہیا کرتی رہے توبسم اللہ ،کوئی بھی وزیراعظم بن جائے فرق ہی نہیں پڑتالیکن یہ حکمران ویژن سے خالی ہیں۔معیشت کے وہی دو چار حل پر فوکس اور دائروں کا سفر۔اللہ اللہ خیرصلا۔۔
اس وقت ملک میں بدترین معاشی بحران ہے اور مجھے ڈیفالٹ یا دیوالیہ کی تعریف یا اس کے واقع ہوجانے کی علامات کا علم نہیں لیکن جس ملک میں پٹرول کے ایک لٹر کی قیمت ڈھائی سوہوجائے،ڈالر کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہو۔قرضوں پر سود تک کی ادائیگی مشکل ہوجائے وہ ملک دیوالیہ ہی ہوتا ہے باقی کہانیاں ہیں ۔مزے کی بات یہ کہ اس عوام کُش حکومت کو ان اقدامات کے باجودڈیفالٹ سے بچانے کا کریڈٹ بھی چاہیے اور اسحاق ڈار کی تعریفیں بھی۔
بات یہ بھی نہیں ۔مسائل آجاتے ہیں ۔گھر ہویا ریاست مسئلے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔مسائل کا پیدا ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن ان مسائل کا اسی طرح موجود رہنا ۔حل نہ ہونا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے رہنا خطرناک ہی نہیں تباہ کن ہوتا ہے اور ہم اسی تباہی کے قریب ترہیں۔ہمارے ہاں سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ جس نیم حکیم کے اسٹیرائیڈ والے کچے کُشتے کھاکر بیماربلکہ کینسرتک پہنچ گئے ہیں ہر بار دوالینے اسی کے درپر چلے جاتے ہیں۔ میر سادہ تھے تو ہم باقاعدہ بے وقوف ہیں ہم نے کبھی آئی ایم ایف سے آگے دیکھا ہی نہیں ۔ شوکت عزیزسے شوکت ترین تک اور مفتاح اسماعیل سے اسحاق ڈار تک وزیرخزانہ کوئی بھی ہوان سب کا نصاب ایک ہی ہے کہ قرض چکانے کے لیے مزید قرضہ۔ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ میں دیدو ۔جب وہ واپس مانگے توپھرتیسرا ہاتھ تلاش کرو۔ بس رہتے مانگنا ہی ہے ۔نہ اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش ہے نہ اس پر تکیہ۔ برآمدات کی بات ہوتو ٹیکسٹائل پر آکرہماری دنیا ہی ختم ہوجاتی ہے ۔کبھی غیرروایتی سوچ اور سیکٹر کواپنی سوچ کے قریب ہی نہیں آنے دیا جاتا۔
اس ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک سیکٹر ہے جس کو انڈسٹری بنایاجاسکتا ہے ۔مارکیٹ دنیا میں موجود ہے بس اپنا مال اس قابل بناناہے لیکن اس کے لیے بھی سُستی اور سرخ فیتے ایسے کہ اللہ کی پناہ۔ اسی ملک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیرروایتی سوچتے ہیں ۔ کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ان میں سے ایک ایسا ہی نام راجا طاہر لطیف کا بھی ہے ۔راجا صاحب نے پیغام بھیجا کہ منہاج یونیورسٹی میں چھٹی ورلڈ اکنامک اینڈ فنانس کانفرنس ہورہی ہے تو آپ نے لازمی آنا ہے۔میں شاید سُستی کرلیتالیکن راجا صاحب نے ہر روزیادہانی کروانے کا کام بھی پکڑلیا تومیں اس کانفرنس میں چلا گیا۔
اس کانفرنس کی صدارت منہاج یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر حسین محی الدین کررہے تھے۔اس میں ترکی سمیت اسلامی دنیا کے ماہرین معیشت شریک تھے ۔اسی کانفرنس میں ایک سیشن ایسا کہ صرف اس پر فوکس کرلیا جائے تو معیشت کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ یہ سیدھا سیدھا ایک نیا ایکسپورٹ سیکٹر بن سکتا ہے ۔یہ سیشن حلال فوڈ ،حلال سرٹیفیکیشن اور اسٹینڈرڈزپر تھا۔اس سیشن کی صدارت او آئی سی کے حلال فوڈ کے ادارے اسٹینڈرڈ اینڈ میٹرالوجی انسٹیٹیوٹ آف اسلامک کنٹریز (ایس ایم آئی آئی سی ) کے جنرل سیکریٹری نے کی ۔دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دو ارب سے زیادہ ہے اور یہ بات طے ہے کہ مسلمانوں نے حلال فوڈ ہی کھانا ہے۔ ہمیں حلال خوراک اور حلال لائف سٹائل کی پروا یا فکر اس لیے بھی نہیں ہے کہ ہم ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں یہاں ویسے ہی ہر چیز حلال ملتی ہے۔گوشت سے لیکر کھانے پینے کی باقی اشیا اوراجزا سب ہی حلال ہیں اس لیے ہمیں ان لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا جو غیرمسلم ممالک میں رہتے ہیں ۔حلال فوڈ کی دنیا بھرمیں اربوں ڈالر کی مارکیٹ ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ مسلمان ہم ہیں لیکن دنیا بھر میں حلال گوشت کے دس بڑے ایکسپورٹرزغیر مسلم ملک ہیں ۔ ان میں برازیل اور آسٹریلیاسب سے اوپر ہیں۔یہاں تک کہ بھارت جن کے اپنے ملک میں گوشت کھانے پر قتل ہوتے ہیں وہ بھی گوشت کا ایک بڑا ایکسپورٹرہے۔باقی کاروبار کی طرح حلال انڈسٹری پر بھی غیر مسلموں کا قبضہ ہے ۔تھائی لینڈ حلال فوڈزکا ایک بڑاحصہ دار اورایکسپورٹرہے۔مسلم ممالک میں صرف ترکیہ ایسا ملک ہے جس کاکچھ حصہ ہے اس انڈسٹری میں لیکن وہ بھی بہت کم ہے ۔ اس کانفرنس میں ترکیہ سے آئے مہمان بھی موجود تھے۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ پاکستان میں ایک ادارہ قائم ہے۔ نام ہے پاکستان حلال اتھارٹی ۔ اس اتھارٹی کے ڈی جی آصف بھگیو بھی اس کانفرنس میں شریک تھے ۔باقی جگہوں پر یہ اتھارٹی وزارت تجارت کے زیر انتظام ہے لیکن پاکستان میں اس کو وزارت سائنس کے نیچے دیدیا گیا ہے ۔پچھلی سرکار نے اس کو وزارت تجارت کے نیچے لانے کی کوشش کی ۔کاغذائی کارروائی ہوئی لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد معاملہ واپس وہیں چلا گیا راجا طاہر لطیف بتارہے تھے کہ گزشتہ دنوں سنگا پور کا ایک سرکاری وفد پاکستان آیا ہوا تھا۔وہ وفد پوری مسلم دنیا کے دورے پر تھا ۔ اس وفد نے بتایا کہ سنگاپوراپنے ملک میں حلال حب بنارہا ہے اور پلان یہ ہے کہ سنگاپور مسلم ممالک سے حلال فوڈ امپورٹ کرے گا ۔وہاں اس کو پراسس اور ری پیکیج کرکے ایکسپورٹ کرکے ڈالر کمائے گا۔یعنی ایک غیر مسلم ملک کو معلوم ہے کہ وہ پاکستان سے حلال فوڈ اپنے ملک لے جاکر دوبارہ دنیا کو ایکسپورٹ کرکے اپنی معیشت کا حصہ بناسکتا ہے لیکن ہم یہ تک طے نہیں کرسکے کہ پاکستان حلال اتھارٹی وزارت کامرس میں ہونی چاہیے یا وزارت سائنس میں۔ہمیں قرضوں اور ڈالروں کی افیون نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کسی اور سیکٹر کوبروئے کار لانے کی سوچ تک ماردی ہے اس آئی ایم ایف کی کوکین نے۔
اس کانفرنس کی بابت ہی معلوم پڑاکہ مسلم دنیا میں صرف ملائیشیا ایسا ملک ہے جس میں حلال سیکٹرکی ایجوکیشن اور ٹریننگ پر باقاعدہ کام ہوا ہے اور اب ملائیشیا کے بعد پاکستان کی منہاج یونیورسٹی ایسا تعلیمی ادارہ بن گیا ہے جس میں حلال ایجوکیشن کا ڈگری اور ڈپلومہ پروگرام جاری ہے ۔یہ سلسلہ دوہزار انیس میں شروع ہوااوراب ایک سالہ اور چھ ماہ کے کورسز بھی کروائے جارہے ہیں ۔یونیورسٹی میں منہاج حلال کے نام پر ادارہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میںپرائیویٹ سیکٹر میں بہت اچھی اچھی یونیورسٹیاں ہیں ۔ یونیورسٹی آف لاہوربھی پاکستان کابہترین تعلیمی ادارہ ہے جس میںمیڈیکل سے لیکرابلاغیات تک بہت سے ڈسپلن موجود ہیں ۔منہاج یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ اگرلاہور یونیورسٹی جیسے بہترین تعلیمی ادارے حلال ایجوکیشن میں بھی آگے آئیں ۔ملک کی انڈسٹری کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے ڈگری پروگرام ہو۔ ڈپلومہ ہو۔ٹریننگ سیشنز کریں۔ سیمینار زاور کانفرنسز صرف اس نیت سے کریں کہ حلال معیشت میں پا کستان کا حصہ ڈالنا ہے۔دنیا کی دو ارب آبادی کی ضروریات میں سے پاکستان حلال فوڈ کی جتنی ضرورت پوری کرسکتا ہے اس کے سیفٹی سٹینڈرڈ کی ٹریننگ اور آڈٹ کی تعلیم پر فوکس کرنا ہے۔
اس کانفرنس میں حلال فوڈ سیکٹر کے بہت سے اسٹیک ہولڈرزسے ملاقات کاموقع ملا۔مرکزی نقطہ حکومت کی بے حسی اور اس سیکٹر کو ایکسپورٹ سیکٹر نہ سمجھنا اور بنانے کی طرف کوئی قدم بھی نہ اٹھانا حلال ایجوکیشن کوبے معنی اور بے کار سمجھنے کی سوچ نمایاں تھی۔حلال فوڈ دنیا بھرکے لیے ایک روایتی فوڈ مارکیٹ ہے لیکن ہمارے لیے اس کا درجہ غیرروایتی ہے۔جو میں نے دیکھا ، سنا اورپڑھا ہے اس کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ اس سیکٹر میں ڈالر موجود ہیں اور شاید اس سے کہیں زیادہ جوہمیں ناک سے لکیریں نکالنے کے بعد آئی ایم ایف سے ملتے ہیں اورہمیں ان کی فرمائش پرایک ہی دن میں پٹرول کی قیمت پینتیس روپے تک بڑھانی پڑجاتی ہے ۔یہ سب کرنے کے بعد بھی ہم بھکاری کے بھکاری ہی رہتے ہیں، ڈار صاحب آپ ڈالرکے پیچھے بھاگتے بھاگتے پسینے میں شرابور ہوچکے ہیں تو میری صلاح ہے کہ بھلے آغاز میں ایک ٹرائل پراجیکٹ ہی سہی ایک موقع حلال معیشت کو بھی دے کردیکھ لیں شاید برکت ڈل جائے۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button