
غیر آئینی اقدام کے راستے پر۔۔۔ ۔۔ محمد مبشر انوار
محمد مبشر انوار
موجودہ سیاسی حالات،حکومتی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ،عمران خان حکومت گرانے کے عمل کو بجا طور پر رجیم چینج کہا جا سکتا ہے ،جس میں اب کسی شک و شبہ کا ابہام بھی باقی نہیں رہا کہ اس میں واقعتاً نہ صرف غیر ملکی سازش تھی بلکہ اندرون ملک سہولت کاروں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بھان متی کے کنبے نے جس طرح عنان اقتدار سنبھال رکھی ہے اور جو اقدامات لیے گئے یا لیے جارہے ہیں،ان میں ریاستی مفادات کہیں بھی نظر نہیں آتے البتہ ان تمام سیاسی جماعتوں کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کی دانستہ کوششیں واضح نظر آ رہی ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ یہ کیسی حکومت ہے ،وطن کے یہ کیسے سپوت ہیں کہ وطن کی سالمیت کو داؤپر لگانے سے گریز نہیں کرتے ،فقط ا س لیے کہ ان کا اپنا لوٹا ہوا مال بچ جائے۔ انہوںنے تو جرم کی تعریف ہی ایسے بدل دی ہے کہ ان کے اپنے کرتوتوں پرعدالتوں کیلئے سزا و جزادینا ممکن ہی نہ رہے اور بطور مقننہ ان کے بنائے ہوئے قوانین کی تشریح کرتے ہوئے نہ صرف متعلقہ ادارے بلکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں انہیں سزا نہ دے سکیں۔ ایک طرف دنیا اپنی ریاستوں میں لوٹ مار کرپشن کے خلاف سخت ترین قوانین بنا رہی ہے،کرپشن میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دے رہی ہے،عالمی برادری کسی ریاست کے غیر قانونی طریقے سے لوٹے گئے وسائل کو ریاست کو واپس دینے کیلئے قوانین پر عمل پیرا ہے تو ریاست پاکستان کے تجربہ کار حکمران ان کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ کسی طرح ان کی لوٹ مار ملکی اداروں کی گرفت سے نکل جائے ۔ جب ملکی قوانین اس لوٹ مار کو غیر قانونی یا کالادھن تسلیم نہیں کریں گے تو بیرون ملک ان زر کے پجاریوں کی تجوریوں میں رکھے دھن کا مطالبہ کس طرح کیا جا سکے گا؟حیرت تو اس امر پر ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی اس اہم ترین مسئلے پر منقسم نظر آتی ہے اور معزز جج صاحبان کی رائے ،اس واضح بد نیت قانون سازی پر منقسم ہے ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نازک ترین مسئلے پر اعلیٰ ترین عدلیہ کسی سائل کا انتظار کئے بغیر ازخود نوٹس لیتی اور بدنیتی پر مبنی اس قانون کو فی الفور ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا لیکن یہ معاملہ ہنوز عدالت کے سامنے ہے ۔رجیم چینج کے بعد کی حکومتی کارروائی سراسر شرمندگی و بدنامی کی ایک شرمناک داستان نظر آتی ہے اور ہر حکومتی نمائندہ اس تمام تباہی کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرانا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا ہے لیکن اس مشق میں ریاست کی ساکھ تباہ ہو چکی ہے اوراب تو نوبت سالمیت تک جاتی نظر آ رہی ہے۔
یہاں یہ امر برمحل ہے کہ امریکہ نے اپنے زیر سایہ ریاستوں کو اپنے چنگل میں کسی ہزارپا کی طرح جکڑرکھا ہے اور شطرنج کی اس بچھی بساط پر اپنے مہروں کو بخوبی استعمال کر رہا ہے البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ امریکہ باہر رہتے ہوئے کسی بھی طور اپنی چالیں نہیں چل سکتاتاوقتیکہ اسے اندرونی سہولت کار میسر نہ ہوں۔امریکی بساط پر ان کے واحد حریف مسلم ممالک ہی نظر آتے ہیں کہ ان کی ساری چالیں انہی ممالک کے خلاف دکھائی دیتی ہیں جبکہ روس یا چین کی مخالفت اپنی جگہ لیکن ان سے براہ راست میدان میں امریکہ نہیں اُتر رہا بلکہ اپنے مہروں کو ہی زیادہ تر آگے دھکیلتانظر آتا ہے ،جن کی اکثریت مسلم ریاستیں رہی ہیں،البتہ اس وقت امریکہ کی کوشش یہ ضرور ہے کہ کسی طرح جنوب مغربی ایشیا میں بھارت اس کی امیدوں پر پورا اترے اور امریکہ چین کے مقابلے میں اس کی پشت پناہی کرتا نظر بھی آتا ہے لیکن بھارت ابھی تک چین کے مقابلے میں ناکام ہے اور چین اسے ہر محاذ پر پیچھے دھکیلتا دکھائی دیتا ہے۔بہرکیف رجیم چینج کاحصہ بنتے ہوئے موجودہ حکومت کی آسیں اور امیدیں یہی تھیں کہ جیسے ہی امریکی حکم کی بجا آوری ہو گی،امریکہ اپنے وعدے کے مطابق،رجیم چینج کرنے والوں پر انعام و اکرام کی بارش کر دے گا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو اس سے زیادہ پرکشش اور کیا چیز دکھائی دے سکتی ہے کہ ایک طرف تو امریکی احکامات کی بجا آوری میں انہیں اقتدار حاصل ہو رہا ہو ،دوسری طرف انہیں ڈالروں کی بارش کا لالچ ہو،تو کیسے نہ حکم تسلیم کیا جاتا؟کہ اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے تو اپنے مقدمات ختم کئے جاتے کہ انہیں روکنے والا کوئی نہیں اور دوسری امید یہ کہ امریکی امداد بحال ہوتے ہی ملکی معاشی صورتحال ٹھیک ہو یا نہ ہو،کم از کم حکمرانوںکیلئے مزید مال بٹورنے کی راہ تو نکل آئے گی،اور یوں ایک ٹکٹ میں دو مزے کرتے یہ حکمران بیرون ملک اپنی تجوریوں کا حجم مزید بڑ اکر نے میں کامیاب ہو جاتے لیکن صد افسوس کہ اس بار امریکہ نے ڈالروں کی بارش نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ حکمران جو کل تک شدید مہنگائی اور معاشی مشکلات پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے تھے،مہنگائی کو روکنے میں بری طرح ناکام ہو چکے،جبکہ ان کی معاشی تجربہ کاری بھی منہ کے بل گری نظرآتی ہے۔ تاریخ کے بدترین سیلاب پر ،ان حکمرانوں کی موجودگی میں عالمی برادری نے امداد دے کر بھی دیکھا کہ ان کی دی گئی امدادمتاثرین تک پہنچنے کے بجائے،سیاسی جلسوں میں سیاستدانوں کے قدموں تلے نظر آئی جبکہ متاثرین سیلاب،سیلاب کی تبارکاریوں کاشکار ہوتے رہے۔ ان ظالم و بے حس حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ ان کی ڈھٹائی پہلے سے کئی گنا زیادہ نظر آئی،اس پس منظر میں سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے ہونیوالی کانفرنس میں شرکاء کی اکثریت نے امداد کی بجائے قرضوں کے وعدے کئے جبکہ امریکہ ،چین وغیرہ نے انتہائی معمولی امداد کااعلان کیا۔ بتدریج اس امداد کے اجراء کی شرائط سامنے آ رہی ہیںاور ایک گذشتہ تحریر میں اس امکان کا اظہار بھی کیا تھا کہ موجوہ حکمرانوں کی ساکھ سامنے رکھتے ہوئے،ان کی قانون سازی کے پس منظر میں عین ممکن ہے کہ مذکورہ ممالک اس امداد کو مشروط یا براہ راست متاثرین تک پہنچانے کا سامان کریں،یہ گمان بھی امریکی اہلکار کے بیان کے بعد حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور اب دی جانے والی امداد مشروط ہو چکی ہے۔
نجانے کیوں امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کا علمبردار بنا ہوا ہے اور ہر ریاست میں جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے،پاکستان سے بھی امریکہ یہی چاہتا ہے کہ یہاں پر بھی جمہوریت کا فروغ ہو اور حمہوریت پھلے پھولے،لیکن اس کارکردگی کے بعد کیا پاکستان میں جمہوریت کی امریکی خواہش باقی بچے گی؟یہاں قطعاً میرا مقصد جمہوریت کی مخالفت نہیں لیکن کیا ایسی جمہوریت میں جمہور کی بہبود ممکن ہے؟کیا دنیا بھر میں مسلمہ جمہوریت کی شکل ایسی ہوتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت جو دہائیوں سے کسی حصے میں قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا رہی ہو،لیکن اچانک بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کر لے؟کس جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے کہ سرکاری مشینری ریاست سے زیادہ سیاسی؍حکمران خاندانوں کی وفادار ہو؟دنیا کی کس جمہوریت میں الیکشن کمیشن کا کردار جانبدارانہ ہوتا ہے؟کس ملک میں انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی رہتا ہے؟حکمرانوں سے جوابدہی کا حق تو ہمارا دین بھی ہمیں عطا کرتا ہے کہ جس سے برتر ہونے کی خو حکمران کے دماغ میں نہیں چڑھتی اور وہ خود کو صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ حقیقتاً عوام کا خادم سمجھتا اور ثابت کرتا ہے لیکن ہمارے حکمران تو ان سب اصولوں سے مبرا رہنا چاہتے ہیں،ان کے بنائے ہوئے قوانین مجبور و بے بس عوام کیلئے ہیں جبکہ وہ خود ان قوانین سے بہت بالا رہتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ملک کے اصل ’’حکمرانوں‘‘ نے امریکی خواہشات کی تکمیل میں ریاست پاکستان میں جمہوریت کا ایک کھیل جاری رکھاہوا ہے اور اس کھیل کے کھلاڑیوں کو یوں مد مقابل کھڑا کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اصل حقیقت سے واقف نہ ہوں اور دست و گریباں رہیںتاوقتیکہ امریکی خواہش جمہوریت کی مکمل تسلی وتشفی نہ ہو جائے اور ریاست پاکستان میں غیر جمہوری اقدامات پر خاموش رہے۔ بدقسمتی سے سیاسی اشرافیہ ،اس میں مہرے کی طرز استعمال ہو رہی ہے وگرنہ پنجاب میں نگران حکومت باہمی اتفاق سے قائم ہو جاتی، تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس آنے دیا جاتالیکن حکومت کے ان اقدامات کا نقصان جمہوریت کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی ہوگا اور یہ رویہ غیر آئینی اقدامات کی راہ ہموار کرنے کے مترادف نظر آتا ہے۔