Editorial

ڈالر تاریخ کی بلند سطح پر !

 

عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف )کے دباؤ پر ڈالر کی مارکیٹ کے مطابق ایڈجسٹمنٹ اور انٹر بینک میں عائد غیر اعلانیہ کیپ ختم ہوتے ہی ایک ہی دن میں امریکی کرنسی کی قیمت میں 28.50 روپے تک کا ریکارڈ اضافہ ہوگیا۔اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر 19.60 روپے تک مہنگا ہو گیا جس سے ایک دن میں پاکستان کے قرضوں میں بھی قریباً2800 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ عالمی مارکیٹ میں اضافے اور روپے کے مقابلے پر ڈالر کی قیمت میں بڑھنے کے باعث مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 4900 روپے فی تولہ کے اضافے سے بڑھ کر ایک لاکھ 95ہزار 500 روپے فی تولہ اور 10 گرام سونے کی قیمت 4201 روپے کے اضافے سے ایک لاکھ 67 ہزار 610 روپے ہو گئی ہے، تاہم حکومت کی جانب سےآئی ایم ایف کی شرائط کی منظوری کے اشارے ملتے ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ گیا،بڑے پیمانے پر خریداری سے سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی۔کرنسی مارکیٹ ذرائع کے مطابق ڈالر کی قیمت میں 28 روپے کا اضافہ پاکستان کی تاریخ میں مالیت کے حساب سے تاریخی اضافہ ہے تاہم شرح کے تناسب سے 1999 کے بعد دوسرا بڑا اضافہ ہے ،ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ملک کے اندر ایکسچینج کی قدر کو آزادانہ یعنی فری فلوٹ کیا جائے گااور اس پر بدھ سے عمل شروع کر دیا جائے گالہٰذا’’ حکم تیرا ہے تو تعمیل کیے دیتے ہیں‘‘ ۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات میں تمام اختلافی امور پر بات چیت ہوچکی ہے لہٰذاپاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا شیڈول طے پا گیا ہے۔ آئی ایم ایف مشن 31 جنوری سے 9 فروری تک پاکستان کا دورہ کرے گااور نویں اقتصادی جائزے پر مذاکرات کرے گا۔ نویں اقتصادی جائزے میں پاکستان کو دیئے گئے اہداف کا جائزہ لیا جائے گااور مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میںایک ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔ آئی ایم ایف کا وفد توانائی شعبے میں گردشی قرضے کی صورتحال، معاشی پالیسیوں میں استحکام کے لیے روڈ میپ، مالی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے لیے اقدامات اور موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے پالیسیز کے اقدامات کا جائزہ لے گا کیونکہ مضبوط پالیسیاں اور اصلاحات کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ سرکاری شراکت داری پاکستان کی پائیدار ترقی کیلئے ضروری ہے۔ آئی ایم کے تین اہم مطالبات میں زرمبادلہ کی قدر کا آزادانہ تعین ، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا اور جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا شامل تھا لہٰذا زرمبادلہ کی قدر کا آزادانہ تعین کرکے ڈالر کو تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچادیاگیا ہے اور آنے والے دنوں میں جن باقی ماندہ شرائط پر من و عن عمل کیا جائے گا ان میں گیس ، بجلی اور پٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ قابل ذکر ہیں۔ برطانیہ کے معروف جریدے ’فنانشنل ٹائمز‘نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے، معیشت تباہی کے قریب پہنچ گئی اور خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ پاکستان کے غیر ملکی ذخائر 5 ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئے ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ معیشت کے بحران کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی کوششوں کے درمیان غیر ملکی کرنسی میں شدید قلت کے سبب کاروبار بھی بند ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں مرکزی بینک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بندرگاہوں پر درآمدی سامان سے بھرے سیکڑوں کنٹینرز پھنسے ہیں کیونکہ خریدار کے پاس ادائیگی کے لیے ڈالرز نہیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں اور ایئرلائن کی ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان نے غیرملکی ایئرلائنز کے ڈالرز روک رکھے ہیں جس کے سبب پاکستان، انڈسٹری کو واجب الادا فنڈز روکنے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک بن گیا ہے دوسری طرف تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال غیر مستحکم ہوتی جارہی ہے، ملک کی صورت حال ڈیفالٹ کا شکار اور سری لنکا کی طرح ہوسکتی ہے جہاں زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ بلاشبہ متذکرہ پیش رفت اور معاشی حالات ہماری معیشت کی سنگینی کو کسی حد تک ظاہر کرتے ہیں مگر اِن فیصلوں اور متوقع حالات کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کی صورت میں جو قیامت گذرنے والی ہے اِس کا ادراک حکمرانوں کو بروقت کرلینا چاہیے تاکہ بعد ازاں سیاسی قیامت چکانے جیسی باتیں کہنے کی نوبت نہ آئے۔ تحریک انصاف نے اپنے دور میں جب ڈالر کو آزاد چھوڑاا ِس کے بعد ڈالر کی قیمت کبھی قابو میں نہیں آئی تب موجودہ حکومت کے معاشی ماہر اِس فیصلے پر کڑی تنقید کررہے تھے مگر آج آئی ایم ایف کے حکم پر وہی کیا جس کو سابق حکومت کے دور میں انتہائی خطرناک فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کے مضمرات شمار کرائے جارہے تھے۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار کا پاکستان پہنچنے سے قبل دعویٰ تھا کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے تک لے کر آئیں گے کیونکہ یہی ڈالر کی اصل قیمت اور جگہ ہے مگر نئے حالات میں اسحق ڈار کی خاموشی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں، خواہ اِس کے جتنے بھی منفی اثرات مرتب ہوں۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی دیگر شرائط پوری کرنے کے لیے کام شروع کردیاہے منی بجٹ کا مسودہ حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے ۔پاکستان نے رواں سال کے لیے مقررہ کردہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی دی ہے اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری جلد ہی کابینہ دے گی کیونکہ گیس کے شعبے کا گردشی قرض بھی ختم کیا جارہا ہے، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی مرحلہ وار بڑھائی جائے گی ۔ بجلی کے حوالے سے بھی اقدامات کئے جائیں گے کیونکہ سرکلر ڈیٹ کے خاتمہ اور بجلی کے سیکٹر کو درست کرنے کے بارے میں رپورٹ کابینہ کے زیر غور ہے، اور اس پر فیصلہ ہو جائے گا۔پس آنے والے دنوں میں وطن عزیز میں مہنگائی بڑھے گی اوربعض معاشی ماہرین تو ڈالر کی قیمت 300 روپے تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں، بہرکیف ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے سے نہ صرف عام پاکستانی بلکہ معیشت سے جڑا ہر شعبہ شدید متاثر ہوگا ، معاشی حالات کس نہج پر پہنچ کر بہتری کی طرف آئیں گی فی الحال کوئی دعوے دار نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس عوام کو مزید مہنگائی سے بچانے کا کوئی پلان نظر آتا ہے اسی لیے آنے والا وقت عوام اور معیشت کے لیے مزید آزمائشوں سے بھرپور نظر آرہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button