
فواد چودھری کے خلاف مقدمہ .. امتیاز عاصی
امتیاز عاصی
محکمہ پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوتے وقت اور سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی کے درمیانی عرصے میں پولیس ملازمین کو پولیس رولز اور ضابطہ فوجداری پڑھا دیا جاتا ہے تاکہ انہیں عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔فوادچودھری کے خلاف اسلام آبا د کے تھانہ کوہسار میںمختلف دفعات کے تحت درج ایف آئی آر کا متن دیکھ کر یوں لگا جیسے مقدمہ کا مدعی اور اسلام آباد پولیس دونوں ضابطہ فوجداری سے نابلد ہیں۔تعجب جب فواد چودھری کا دوروزہ ریمانڈلیاگیا حالانکہ مقدمہ کی ایف آئی آر کی روشنی میں ملزم سے کون سی چیز برآمد کرنا تھی جو پولیس نے ریمانڈ لیا۔
فواد چودھری سے ہماری کوئی شناسائی نہیں بس اتنا پتا ہے وہ پنجاب کے سابق گورنر چودھری الطاف مرحوم کے بھتیجے ہیں اور مشرف دور میں ان کے ساتھ تھے بعد ازاں پیپلز پارٹی سے قربت ہوگئی اور آج کل عمران خان کے محبوب ہیں۔سیکرٹری الیکشن کمیشن جو مقدمہ کے مدعی ہیں وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں،یہ ٹھیک ہے بیورو کریسی کا ضابطہ فوجداری سے دور کا تعلق نہیں ہوتا لیکن پولیس کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ بغاوت کا مقدمہ اسی صورت میں بنتا ہے جب کوئی وفاقی صوبائی حکومت کے خلاف کوئی ایسی بات کہے جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہو۔گو الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے وہ وفاقی یا صوبائی حکومت تو نہیں۔سوال یہ ہے کیاسیکرٹری الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت نے بغاوت کا مقدمہ درج کرانے کا اختیاردیاتھا؟ضابطہ فوجداری کی دفعہ 196 کے تحت جب تک وفاقی حکومت کسی کو اس بات کا اختیار تفویض نہیں کرتی و ہ کسی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرائے کیس رجسٹرڈ نہیں ہو سکتالہٰذا اس قانونی سقم کی روشنی میں فواد چودھری کے خلاف بغاوت والی دفعہ ویسے ختم ہو جاتی ہے۔ضابطہ فوجداری کے تحت سیکرٹری الیکشن کمیشن صرف اسی صورت میں مقدمہ کا اندراج کر سکتا تھا جب وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی اختیار دیا گیا ہو۔ایف آئی آر میں دفعہ153 اے لگائی گئی جوایسی صورت میں لگائی جاتی ہے جب کوئی مختلف گروپس کے درمیان نفرت کو فروغ دینے کا مرتکب ہو۔جہاں تک دفعہ 506 کی بات ہے دھمکی دو قسم کی ہوتی ہے اگر کسی کو عام دھمکی دی جائے تو اس کی دو سال سزا ہے اور اگر کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جائے تو اس کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال ہے۔دو سال کی سزا قابل ضمانت ہے، سیاست دان جمہوریت میں تنقید والی بات پر متفق ہیں البتہ تنقید کرتے وقت وہ تمام اخلاقی حدوں کو عبور کر جاتے ہیںساتھ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں تنقید جمہوریت کا حُسن ہے ۔چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی تحریک انصاف کے نشانے پر تھا کہ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے خلاف بھی پی ٹی آئی نے مورچہ سنبھال لیا ۔
جانے سیاست دان کیوں بھول جاتے ہیں کہ قومی اسمبلی اور پنجاب کے ضمنی الیکشن اسی چیف الیکشن کمشنر کی نگرانی میں ہوئے جس میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ نون کے مقابلے میں بھاری کامیابی ہوئی اس کے باوجود الیکشن کمیشن پربد اعتمادی کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔اب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ خیبر پختونخوا میںنگران وزیراعلیٰ کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پاگیا جس میں تحریک انصاف اور جے یو آئی اور دیگر تمام جماعتوں کو اعظم خان کے نام پر اتفاق تھا۔سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہین میں رکھنی چاہیے ووٹ تو عوام نے ڈالنے ہیںانہیں اپنے ووٹرز پر اعتماد ہونا چاہیے لہٰذا چیف الیکشن کمشنر خواہ کوئی بھی ہو ۔اگر عوام کسی کو منتخب کرنا چاہیں تو ان کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔
پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے جو نام تجویز کئے ناصر کھوسہ نے معذرت کر لی اور احمد نواز سیکھرا ابھی تک کابینہ سیکرٹری کے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور ماہ رواں کے آخر میں ریٹائرہو جائیں گے ،چنانچہ اس صورتحال میں مسلم لیگ نون نے جو دو نام دیئے تھے انہی میں سے ایک کو نگران وزیراعلیٰ ہونا تھا پھر الیکشن کمیشن کو کس بات پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے؟سیاست دانوں کو حکومت میں رہتے ہوئے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینا چاہیے ۔عوام اتنے سادہ نہیں وہ جھوٹے وعدے کرنے والوں کو ووٹ دے دیں۔عمران خان نے اپنے دور میں دو اہم کام کئے ہیں ایک تو عوام میں کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف شعور بیدار کرنے کا کریڈٹ انہیں دینا پڑتا ہے اور دوسرے اقتدار میں دو پارٹیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ان کا کمال ہے۔
فواد چودھری کی گرفتاری سے متعلق مسلم لیگ نون کے دو سنیئر رہنمائوں شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق کے بیانات کسی کی تکلیف اور گرفتاری پر خوشی کا اظہار کم ظرفی ہے اور شاہد عباسی نے تو فواد چودھری کی گرفتاری کو غلط قراردیا ہے جو حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ فواد چودھری خود بھی قانون دان ہیں ان کے خاندان کے اور لوگ بھی قانون کے پیشے سے منسلک ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے مقدمہ کا اندارج کرا دیا ہے۔ فواد کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلے گا یا ان کی ضمانت کا معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرو پیش ہوگا الیکشن کمیشن کو فواد چودھری کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت کرنا ہوں گے اگروہ ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے تو الیکشن کمیشن کی حیثیت کیا رہ جائے گی؟سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا جائے تو بہت سی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے جلد بازی کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں آتا ہے ۔ جس طرح سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات کی حدیں عبور کر رہے ہیں ہر روز کسی نہ کسی سیاست دان کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے لہٰذا سیاست دانوں کو اپنی اس روش کو بدلنا ہوگا انہیں عوام کیلئے رول ماڈل ہونا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان کا استعمال کرکے اپنا وقار مجروح کیاجائے۔