Ali HassanColumn

نقیب اللہ محسود قتل کیس .. علی حسن

علی حسن

 

نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار سمیت دیگر تمام ملزمان کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کراچی سینٹرل جیل میں فیصلہ سناتے ہوئے عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیاہے۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور تمام ملزمان کے خلاف شواہد ناکافی ہیں۔ عدالت نے 5 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی رائو انوار سمیت تمام 18 ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ رائو انوار کو مبینہ جعلی پولس مقابلوں کا ایکسپرٹ قرار دیا جاتا ہے۔ استغاثہ نے کہا تھا کہ مقابلہ مبینہ تھا، نقیب اللہ سمیت 4 افراد کا قتل ہوا تھا لیکن جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ان میں سے کسی کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے جاسکے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نقیب اللہ اور دیگر کو جس پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا وہ جعلی تھا۔ عدالت نے قتل کے واقعہ کو سفاکانہ قرار دیا۔ استغاثہ کی یہ پہلی ناکامی نہیں ۔ استغاثہ کی نا اہلی کی وجہ سے مقدمہ پر مقدمہ میں ملزمان بری ہو رہے ہیں حالانکہ پروین رحمان قتل کیس کے فیصلہ کے روز 21 نومبر 22 کو سندھ پولیس کے آئی جی غلام نبی میمن حیدرآباد میں تھے اور انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ استغاثہ کی کمزوریوں کی وجہ سے مقدمہ کمزور تھا اس لیے ملزمان بری ہو گئے۔ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے فیصلہ پر رد عمل میں ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید اوڈھو نے کہا کہ تحریری فیصلہ کے بعد اپیل کے حوالے سے ہائی کمان کے مشورے سے فیصلہ کریں گے۔ نقیب اللہ قتل کیس کا از خود نوٹس اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے لیا تھا اور نقیب اللہ کے والد حاجی خان محمد سے عدالت میں وعدہ لیا تھا کہ محسود قبیلہ اس کیس میں اپنا کوئی فیصلہ نہیں کرے گا اور یقین دلایا تھا کہ عدالت متاثر ہ خاندان کو انصاف فراہم کرے گی۔ پولیس کی کمزوریوں کی وجہ سے جس طرح کا فیصلہ آیا ہے اس پر حاجی خان محمد تو حیات نہیں ہیں لیکن محسود قبیلہ اس فیصلہ سے کیوں اتفاق کرے گا۔ نقیب اللہ کے رشتہ دار کیوں مانیں گے۔ قبیلہ کے لوگ تو یہ جانتے ہیں کہ ان کے قبیلہ کا فرد بے قصور اور بلا وجہ مارا گیا ہے۔
کراچی لیاری کے علاقہ سے تعلق رکھنے والے بدنام زمانہ مبینہ جرائم پیشہ شخص استغاثہ کی مقدمہ درست طریقے سے تیار نہ کرنے اور سقم پر سقم چھوڑنے کی بنیاد پر کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم شواہد کی بناء پر عذیر بلوچ اور ذاکر عرف ڈاڈا کو ایک اور مقدمہ سے بری کردیا ہے۔یہ قتل کیس کا فیصلہ تھا۔ پولیس کے مطابق عذیر بلوچ اور ذاکر ڈاڈا پر مخالف گینگ کے کارندے عمران کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ جسے 2012ء میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا ۔ پولس کیلئے باعث تشویش یہ بات ہونا چاہیے کہ عذیر بلوچ اب تک 25 مقدمات میں بری ہوچکا ہے جبکہ اْس کے خلاف 60 سے زائد مقدمات درج ہیں۔
کراچی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن قتل کیس میںسندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ملزمان کی سزا کے خلاف اپلیں منظور کرتے ہوئے سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن نے مزید کوئی تحقیقات نہیں کی لہٰذا پیش کئے گئے ثبوت کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دی گئی اور ہدایت کی گئی کہ ملزمان اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں رہا کیا جائے، عمرقید کی سزاپانے والوں میں ایاز سواتی، رحیم سواتی، امجد حسین عرف امجد آفریدی اور احمد عرف پپو کشمیری بھی شامل تھے ۔ جرم ثابت ہونے پر 4 مجرموں کو 2،2 بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ 4 مجرموں کو مجموعی طور پر 57، 57 سال قید اور پونے4 لاکھ روپے فی کس جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔ پروین رحمان مرحومہ کو کراچی میں 13 مارچ 2013 کو سماجی اورنگی ٹائون میں قتل کردیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے پروین رحمن کے قتل کا از خود نوٹس لیا تھا۔ اخباری تحقیقات کے مطابق انہیں اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا تھا۔ پروین رحمن کے قتل میں گرفتار ملزم امجد حسین عرف امجد آفریدی نے جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں انکشاف کیا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار پروین رحمن سے زمین مانگ رہے تھے اور انکار پر کالعدم تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کرا دیا گیا تھا۔
اس تماش گاہ میں سرکاری استغاثہ کی کمزوریوں کی وجہ سے ہی ملک بھر میں عدالتوں سے رہائی پانے والوں کی طویل فہرست موجود ہے۔ ملزمان کے بری ہونے کے سبب جرگوں پر لوگوں کا یقین پختہ ہو گیا ہے۔ تمام تنازعوں پر جرگے منعقد کرکے فیصلہ کئے جاتے ہیں۔ ملک بھر کے چیف جسٹس صاحبان کیوں نہیں توجہ دیتے ہیں کہ آخر اس ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر پولیس مقدموں کی تیاری میں اپنی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتی تو صوبائی حکومتیں کیوں نہیں اپنی پولیس کی اہلیت میں اضافہ کا بندوبست کرتی ہے یا پھر برطانوی، سعودی اور چینی پولیس سے تعاون حاصل کرے تاکہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ انصاف تو ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button