ColumnJabaar Ch

اُمید ِ سحر۔۔۔؟ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

پنجاب کی گدی سرک جانے کے بعد چودھری پرویز الہٰی پریشان اورطعنہ زنی پر اتر آئے ہیںتو عمران خا ن عملی طورپرمفلوج نظر آرہے ہیں،وہ بھلے کہتے رہیں کہ ان کے پاس اب بھی بہت سے کارڈ باقی ہیں اور یہ بھی کہہ لیں کہ ان کی اسمبلی تحلیل کی چال کوتاریخ صدیوں یاد رکھے گی لیکن سچ اور حقیقت یہی رہے گی کہ انہوں نے سب کے سب کارڈ کھیل بھی دیے ہیں اور شو بھی کروادیے ہیں اور رہی بات اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام کی تو خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ یہاں لوگوں کوصبح کی بات شام کوبھول جانے کی عادت ہے ۔جو قوم سانحہ مشرقی پاکستان بھول گئی ۔اے پی ایس کا دل سوزسانحہ اسے یاد نہیں وہ قوم ایک اسمبلی کی تحلیل کویاد رکھے یہ عمران خان کی بھول ہے۔عمران خان اپنے ترکش کے سب ہی تیرچلاچکے ہیںانہوں نے اپنے ہاتھ تک کاٹ کراس حکومت کے حوالے کردیے ہیں۔وہ اب سوائے احتجاج یا عدالتوں میں جانے کے اورکچھ نہیں کرسکتے اوراحتجاج وہ پہلے ہی اس قدرکرچکے ہیں کہ اب اس میں بھی وہ جان باقی نہیں رہی۔
حالت یہ ہوچکی ہے کہ محسن نقوی کی تعیناتی پر وہ ٹی وی پر بات کے علاوہ اور کیا کرسکے؟کیا ان کا راستہ روک پائے؟نگران وزیراعلیٰ نے کابینہ بنانے سے پہلے ہی پورے پنجاب کی بیوروکریسی بدل ڈالی۔چیف سیکریٹری سے آئی پنجاب تک نیا آگیا عمران خان نے کیا کرلیا؟فواد چودھری کو گرفتارکرلیا گیاعمران خان نے کیا کرلیا؟فرخ حبیب پر کار سرکارمیں مداخلت کا مقدمہ ہوگیا عمران خا ن نے کیا کرلیا؟وہ زمان پارک میں غیرمحفوظ ہوگئے تو کیا کرلیں گے؟وہ دس ماہ پہلے فوری انتخابات کیلئے سڑکوں پر نکلے تھے آج دس ماہ بعد بھی بغیر الیکشن سڑکوں پر ہیں ۔کوئی اس کو کامیابی کہنا چاہتا ہے تواس کی مرضی ہے۔سیاست جارحانہ ہوسکتی ہے جذباتی نہیں ۔پاپولرہوسکتی ہے لیکن بے وقوفانہ نہیں ۔عمران خان بھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں آئین ،قانون اور اداروں کی اتنی ہی اوقات ہے کہ وہ خود عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے بلوانے کے باوجود کسی کولفٹ نہیں کروارہے تو ان کا کسی قانون نے کیا بگاڑ لیا، اگر یہ حکومت والے پنجاب اور خیبر پختونخوامیں الیکشن تاخیر کاشکار کرلیں۔جنرل الیکشن کے ساتھ تک کھینچ لیں تو کوئی ا ن کا کیا کرلے گا؟کراچی کا بلدیاتی الیکشن ہوگیا کیونکہ سندھ حکومت کروانا چاہتی تھی۔اسلام آباد کا نہیں ہوسکا کیونکہ وفاقی حکومت نہیں کروانا چاہتی،کیس چل رہا ہے لیکن اسلام آباد میں الیکشن ملتوی ہیں وہاں پی ٹی آئی یا عمران خان نے کیا کرلیا؟عمران خان الیکشن کیلئے اس حکومت کے رحم وکرم پر آگئے ہیں ۔
عمران خان اگرکچھ حاصل نہیں کرسکے توآج پاکستان پہنچنے والی مریم نوازکیا کرلیں گی؟مریم نواز آج پانچ ماہ لندن کے پرسکون ماحول میں اپنے والد کے ساتھ گزارکرپاکستان پہنچ رہی ہیں۔نون لیگ اپنی عددی طاقت کے مطابق ان کا لاہور پہنچنے پر استقبال کرنے کی بھی کوشش کرے گی ۔ایک وہ استقبال تھا جو دوہزاراٹھارہ میں نوازشریف اورمریم نواز کا ان کی پارٹی نے شہبازشریف کی قیادت میں کیا تھا۔اس دن انکل شہبازکا قافلہ ایئرپورٹ ہی نہیں پہنچ سکا تھالیکن آج نون لیگ کے کارکن ایئرپورٹ ضرورپہنچ جائیں گے کیونکہ مریم نے لاہور کی صدارت اپنے گروپ اوروفادار سیف الملوک کھوکھرکے حوالے کردی ہے۔کھوکھروں کے پاس کارکن کرائے پر حاصل کرنے کی بھی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے اس لیے نعرہ پارٹی موجود ہوگی۔ باقی لیڈروں کی اتنی گاڑیاں تو ہوں گی کہ ایئرپورٹ سے جاتی عمرہ تک لاہور رنگ روڈ پر رونق لگ جائے گی۔
مریم نوازکو پارٹی کا چیف آرگنائزربنایا گیا ہے ۔یہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ پاکستان پہنچ رہی ہیں ۔ان کو عہدہ دینے کا فیصلہ ان کے ساتھ بیٹھے ان کے والد اور پارٹی قائد نوازشریف نے ہی کیا تھا البتہ نوٹیفیکیشن پارٹی صدرشہبازشریف کو جاری کرنا پڑا۔سننے میں آرہاہے کہ مریم کو یہ عہدہ دینے پر شہبازگروپ بطور خاص اورپارٹی کے بڑے انکل حضرات خوش نہیں ہیں۔لاہور کی صدارت کا عہدہ بھی پرویزملک کی وفات کے بعد سے خالی تھا ۔خبر تھی کہ خواجہ سعد رفیق اپنے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو لاہور کا صدربنانا چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش کو خبربننے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ختم کردیا گیا۔اس کے بعد سے خواجہ سعد رفیق بھی پچھلی صفوں میں جابیٹھے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل،راجاظفرالحق جیسے قائدین غیرفعال ہوچکے ہیں۔سننے میں تویہ بھی ہے کہ حمزہ شہبازبھی ناخوش ہیں اس لیے سلمان شہبازکو میدان میں اتاراگیا ہے تاکہ وہ اب شہباز گروپ کے سرخیل کا کرداراداکریں ۔
جیسے مریم نوازکے استقبال کی تیاری کی جارہی تھی اس سے تویہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مریم کی سیاسی ری لانچنگ کا پروگرام بنایا جائے۔ نوازشریف کی نااہلی کے بعد پارٹی پر جوان کی گرفت ڈھیلی ہونے کے امکانات تھے اس کا ازالہ کیا جائے اس لیے مریم اب پارٹی کے عہدے اپنے گروپ کے لوگوں میں تقسیم کریں گی۔پارٹی کی سرگرمیاں ماڈل ٹاؤن سے جاتی عمرہ منتقل ہوجائیں گی ۔مریم نوازکے سامنے اپنی پارٹی کی دھڑے بندی ختم کرنے کا بڑا چیلنج ہوگا۔پارٹی کے سینئر قائدین کو ساتھ لے کر چلنا ان کو عزت دینا اور ان سے کام لینا بھی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔اس سے بھی بڑا چیلنج حکومت کی تباہ کن کارکردگی کے ملبے میں دبی نون لیگ کو باہر نکالنا ہوگا۔ایسے وقت میں جب پارٹی حکومت میں بھی ہے لیکن نااہلی میں ’’گوڈے گوڈے‘‘ڈوبی پڑی ہے۔لوگ اب باتوں سے ماننے والے بھی نہیں اور پرفارمنس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔اپنی پارٹی کی نااہلی کو ’’جسٹیفائی‘‘ کرنا کتنا ممکن ہوسکے گا یہ بھی بڑاچیلنج ہوگا۔
ایک اور چیلنج بھی ہوگا کہ اس وقت نون لیگ کے پاس بیچنے کیلئے کوئی سیاسی بیانیہ بھی موجود نہیں ہے۔نون لیگ اپنا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے عمران خان کوپکڑاچکی ہے۔اب سول سپرمیسی کے بیانیے کے جملہ حقوق بحق کپتان محفوظ ہیں ۔یہ بات واضح ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ نون لیگ کے ہاتھ میں ہے نہ ہی آسکتا ہے۔ہاں ثاقب نثار اورفیض حمید کی بات کرسکتے ہیں لیکن باجوہ کادفاع تو خودان کی اپنی حکومت کررہی ہے اوراسی حکومت نے جنرل باجوہ کاٹیکس ریکارڈ دینے والے صحافی کاجوحال کیا ہے وہ بھی مریم نوازکو معلوم ہی ہوگا۔
سب سے بڑاسوال تویہ ہے کہ پنجاب میں الیکشن توہونے ہی ہیں،جلد یابدیرلیکن الیکشن توہوں گے۔کیا وہ الیکشن مریم نوازجیت سکیں گی؟اس سے پہلے تک کی پرفارمنس دیکھیں تومریم نوازکے کریڈٹ پر صرف ناکامیاں ہی ناکامیاں ہیں۔ مریم نوازکو گلگت بلستان کی الیکشن مہم کا انچارج بنایاگیا،وہ کئی روز تک گلگت میں موجود رہیں۔پوری پارٹی ان کے ساتھ رہی لیکن مریم نوازکی قیادت میں ن لیگ کا گلگت سے باقاعدہ صفایا ہوگیا۔اس کے بعد ان کو کشمیر کے الیکشن کا انچارج بنایا گیا۔کشمیر میں بھی گلگت کی طرح نون لیگ کی پانچ سال حکومت رہی لیکن مریم نوازکی قیادت میں نون لیگ کشمیر میں بھی بری طرح شکست کھاگئی۔کشمیر میں تو پیپلزپارٹی نے نون لیگ سے کہیں بہترپرفارم کیا۔پھر حمزہ شہبازکاعہدہ بچانے کیلئے پنجاب کے بیس ضمنی انتخابات ہوئے توایک بارپھرمریم نواز کو الیکشن مہم کا انچارج بنایاگیا لیکن اس بار بھی نتیجہ مختلف نہیں تھا۔نون لیگ پنجاب کے ضمنی الیکشن ہار گئی۔ یہاں تک کہ لاہورکی چار میں سے تین سیٹوں پر نون لیگ کو شکست ہوگئی۔مریم کی انتخابی مہم حمزہ شہبازکی کرسی بچانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ۔اس کے بعد سے مریم نوازلندن میں تھیں اورحمزہ بھی دلبرداشتہ سے ہوکر ملک سے باہرچلے گئے۔اعتماد کے ووٹ اور پھر نگرا ن سیٹ اپ پر مشاورت جیسے اہم ترین مواقع پر بھی پاکستان نہیں آئے۔اب پنجاب میں الیکشن کا ماحول ہے لیکن حمزہ شہبازکو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔وجہ کیا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ اگر اس بار نون لیگ جیت بھی گئی تو پنجاب میں نہ حمزہ وزیراعلیٰ ہوں گے اور نہ ہی شہبازگروپ میں سے کسی کو یہ عہدہ ملے گا۔میں پہلے بھی ایک کالم میں ذکرکرچکا ہوں کہ شریف خاندان میں سیاست کامیدان اور عہدوں کی تقسیم کا فارمولہ بہت پہلے سے طے ہے۔پہلے نوازخاندان مرکز اور شہباز خاندان پنجاب کاوارث تھا لیکن نوازشریف کی نااہلی اورعدم اعتماد کے بعد پیدا حالات نے صورتحال تبدیل کردی ہے اب مرکز شہبازشریف اور پنجاب نوازشریف فیملی کے پاس ہے۔اس لیے مریم نوازجو بھی کوشش اور محنت کریں گی وہ خود کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کیلئے کریں گی۔مرحلہ واریہ خبریں سامنے لائی جائیں گی کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ کی امیدوار نون لیگ کی طرف سے مریم نوازہوں گی۔توکیا یہ کوئی نئی امیدسحرہوگی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button