ColumnRoshan Lal

ایک اور بلیک آئوٹ .. روشن لعل

روشن لعل

 

پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی 1965 اور 1971 کی جنگوں کوبقائمی ہو ش و حواس جھیلنے والے لوگ بخوبی جانتے ہوں گے کہ جنگ اور ’’ بلیک آئوٹ‘‘ میںکیا تعلق ہوتا ہے ۔ بلیک آئوٹ کو سب سے پہلے، سٹیج ڈراموں میں ایک سین ختم ہونے پر سیٹ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے دوران بتیاں گل کرنے کیلئے اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بعد ازاں، اصطلاح کے طور پر ہی اس کا دوسرا استعمال پہلی جنگ عظیم کے دوران یوں ہوا کہ جب رات کے وقت دشمن کے جہازوں کی بمباری سے شہری علاقوں کے محفوظ رکھنے کیلئے بیرونی لائٹیں بند کروائی گئیں تو اس عمل کو بھی بلیک آئوٹ کا نام دیا گیا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران بلیک آئوٹ کرنے کی احتیاطی تدبیر کیونکہ کافی موثر ثابت ہوئی تھی اس لیے دوسری جنگ عظیم سے قبل یورپ میں فوجی سپاہیوں اور شہریوں کو جو مشقیں کرائی گئیں ان میں بلیک آئوٹ کو بھی خاص طور پر ان مشقوں کا حصہ بنایا گیا۔سٹیج ڈراموں اور جنگوں کے بعد اصطلاح کے طور پر لفظ بلیک آئوٹ کا تیسرا استعمال بجلی کے بڑے بریک ڈائون کی وجہ سے پیدا ہونے والے گھٹا ٹوپ اندھیرے کیلئے کیا گیا۔
پاکستان میں جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ لفظ بلیک آئوٹ کا سٹیج ڈراموں اور جنگوں کے ساتھ کیا تعلق ہے وہ اس بات سے ضرور آگاہ ہوں گے کہ بجلی کی کس قسم کی عدم فراہمی کو لوڈ شیڈنگ اور کس حد تک تعطل کو بلیک آئوٹ کہا جاتا ہے ۔ اگر کوئی اب بھی بے خبر ہے تو اسے بجلی کی فراہمی میں تعطل اور لفظ بلیک آئوٹ کے تعلق سے اس لیے ضرور آگاہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک کے پاس چاہے کوئی دوسرا ریکارڈ ہے یا نہیں مگریہ ریکارڈ اس کے نام ضرور ہو چکا ہے کہ رواں صدی میں بجلی کے سب سے زیادہ بریک ڈائون اور بلیک آئوٹ یہاں کے لوگوں کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔ واضح رہے کہ کسی بھی ملک میں بجلی کے طویل تعطل کی وجہ سے پیدا ہونے والےبلیک آئوٹ کا ریکارڈ ایک عرصہ سے عالمی سطح پر مرتب کیا جارہا ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق بجلی کے جو بڑے بڑے بریک ڈائون، رواں صدی یعنی سال 2000 سے اب تک دنیا میں بلیک آئوٹ کا سبب بنے، ان کی تعداد 24 ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا میں بجلی کے جو بریک ڈائون اس عالمی ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے ، ایک تو ان کی وجہ سے پیدا ہونے والا بلیک آئوٹ کئی گھنٹوں پر محیط تھا اور دوسرا اس بلیک آئوٹ سے متاثر ہونے والے لوگوں کی کم سے کم تعداد بھی بیس ملین سے زیادہ تھی۔ اس ریکارڈ کے مطابق جن نو ملکوں میں 20 ملین سے زیادہ لوگ ایک مرتبہ بلیک آئوٹ سے متاثر ہوئے ان کے نام امریکہ ، کینیڈا، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، ارجنٹینا، ترکی، وینزویلا، یورا گوئے اور پیراگوئے ہیں۔ انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا ، انڈونیشیا اور فلپائن میں بلیک آئوٹ جیسے حالات سال 2000 سے اب تک دو مرتبہ پیدا ہوچکے ہیں ۔ اب آتے ہیں پاکستان کے ریکارڈ کی طرف،وطن عزیز کے لوگ رواں صدی کے آغاز سے اب تک پانچ مرتبہ عالمی ریکارڈ کا حصہ بننے والے بلیک آئوٹ کا عذاب برداشت کر چکے ہیں۔ یہ بات صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی ، ابھی تک جس ملک کے سب زیادہ تعداد میں لوگ کسی ایک پاور بریک ڈائون یا بلیک آئوٹ سے متاثر ہوئے اس کا نام تو بھارت ہے مگر اس فہرست میں اگلے تین نمبروں پر پاکستان کا نام آتا ہے۔ بھارت میں 30 اور 31 جولائی 2012 کو جو بریک ڈائون ہوا اس سے وہاں کے 630 ملین لوگ اور 2001 میں رونما ہونے والے بلیک آئوٹ سے 230 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے۔ قبل ازیں کسی بلیک آئوٹ کے دوران ملک کی سب سے زیادہ آبادی متاثر ہونے کے پہلے دونوں ریکارڈ بھارت کے پاس تھے مگر دوسرے نمبرپرموجود ریکارڈ میں اب پاکستان بھی اس کا حصہ دار بن گیا ہے کیونکہ 23 جنوری 2023 کویہاں رونما ہونے والے بلیک آئوٹ سے ملک کے جو 99 فیصد لوگ متاثر ہوئے ان کی تعداد کا اندازہ 230 ملین لگایا گیا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں 2021 اور 2022 میں بجلی کے جو بریک ڈائون ہوئے ان سے ہر مرتبہ 200 ملین لوگ متاثر ہوئے ۔
پاکستان میں بجلی کا پہلا بڑا بریک ڈائون پرویزمشرف دور میں 24ستمبر 2006،دوسرا نواز شریف دور میں26 جنوری2015 ، تیسرا عمران دور میں9 جنوری 2021 ، چوتھا شہباز دور میں 13 اکتوبر2022 اور پانچواں پھر شہبازدور میں 23 جنوری 2023 کو ہوا۔ مشرف دور میں جب پہلا بریک ڈائون ہوا اس وقت کے واپڈا کے ترجمان شفقت جلیل نے میڈیا بریفنگ کے دوران یہ تو بتا دیا تھا کہ عین کتنے بج کر کتنے منٹوں پر یہ بریک ڈائون رونما ہوا مگر اس کی وجوہات کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کسی انکوائری کے بعد بتانے کا کہہ کر منظر عام سے غائب ہو گئے ۔ اب 23 جنوری 2023 کے بریک ڈائون کے متعلق بھی،وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے قریباً اسی موقف کو دہرایا جس کا اظہار 17 برس قبل رونما ہونے والے بریک ڈائون کے بعد شفقت جلیل نے کیا تھا۔ پاکستان میں اب تک پے در پے بجلی کے جتنے بھی بریک ڈائون ہو چکے ہیں ان سے متعلق شاید ہی کوئی انکوائری ابھی تک منظر عام پر آئی ہو ۔ اس حوالے سے تشویشناک بات صرف یہ نہیں کہ یہاں گزشتہ 17 برسوں کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ بجلی کے بڑے بریک ڈائون ہوئے بلکہ یہ بھی ہے کہ آخری تین بریک ڈائون لگاتار تین سالوں میں ہوئے ہیں اور آخری دو کے درمیان تو وقفہ صرف تین ماہ کا ہے۔
مشرف دور سے اب تک پاکستان میں بجلی کے ہر بڑے بریک ڈائون کے فوراً بعد یہ ہوتا رہاکہ یہاں حکومتوں کے تختہ الٹے جانے کی افواہیں گردش کرنا شروع ہو گئیں۔ اس مرتبہ حکومت کا تختہ الٹنے کے ساتھ ایک زیر گردش افواہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی بھی تھی۔ اس افواہ میں بجلی کے حالیہ بریک ڈائون کو کسی فنی خرابی کی بجائے اس بات سے جوڑا جارہا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائرمیں کمی کی وجہ سے حکومت بجلی پیدا کرنے کیلئے تیل نہیں خرید سکی تھی اور تیل نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداواریکایک روک دی گئی ہے۔ وزیر توانائی خرم دستگیر نے جہاں دیگر باتیں کیں وہاں ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے یہ حوصلہ بھی دیا کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔خرم دستگیر کے اس بیان پر اطمینان کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بجلی کے تازہ ترین بریک ڈائون کے دوران یہاں ملک کے دیوالیہ ہونے کے متعلق جو کچھ کہا گیا اسے اصل نہ سہی لیکن بلیک آئوٹ کی اس طرح کی مشق ضرور سمجھ لیا جائے جو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یورپ میں شہریوں کو کرائی جاتی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button