ColumnQadir Khan

گرم خواب گاہ کے ٹھنڈے خواب .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

عصر حاضر کے علما ئے نفسیات نے غلامی اور آزادی کے فرق کو نمایاں طور پر مختصر الفاظ میں بیان کرتے ہوئے آزادی کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے ایک یعنی طبیعی زندگی کی ضرورت کی فکر سے آزادی۔ ان کے حصول اور استعمال میں پوری پوری آزادی، اور دوسری آزادی فکر و عمل کی آزادی، فیصلوں کی آزادی، انتخاب کی آزادی حسب منشا کام کرنے کی آزادی۔ ملک خدادادپاکستان میں آزادی کی تحریک مختلف جماعتوں کی جانب سے چلائی جاتی رہیں ،لیکن یہ آزادی کی تحریک صرف اقتدار تک محدود رہی اور عوام کو پر فریب نعروں سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ آزادی کی تحریک صرف ان کیلئے ہے کیونکہ وہ ایک قوت کے غلام ہیں جو انہیں فکر و عمل کی آزادی سے روکتی ہے تو انہیں اپنے فیصلے خود سے کرنے کی بھی آزادی نہیں، کہنے کو تو غلامی کی جتنی اشکال تھی اور آزادی کے جتنے سنہری خواب، سب عوام کو دکھائے جاتے رہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے اور ہم اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ ہم خود اس گرم خواب گاہوں کے ٹھنڈے خوابوں سے باہر آنا بھی نہیں چاہتے۔اس سہل پسندی کی کیا وجوہ ہیں، اس پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں کیونکہ ہم صرف فروعی مفادات سے آگے کی نہیں سوچتے۔
صوبائی حکومتوں کی تحلیل کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے کئی ماہ قبل دئیے گئے استعفیٰ بالآخر منظور کرلیے گئے، یہ کھیل منطقی انجام کو پہنچا کہ جب تحریک انصاف نے سیاسی مقاصد کیلئے اجتماعی استعفوں کا آپشن دوسری بار استعمال کیا۔ اس سے قبل یہ تیر بہدف نسخہ آزمایا جا چکا تھا اور 126 دن کے دھرنے اور اجتماعی استعفوں کے بعد دوبارہ وارد ہوکر اپوزیشن کی نشستوں پربراجمان ہوئے۔ اتحادی حکومت کا خیال تھا کہ شاید اس بار تحریک انصاف کے اراکین واپس اسمبلیوں میں نہیں آئیں گے اس لیے انہیں ’آ بیل مجھے مار‘ کی طرح بار بار اسمبلی میں آنے کی دعوت دیتے رہے۔ عمران خان نے اپنے سارے پتے کھیلنے کے بعد ایک بار پھر اسمبلی کارڈ کھیلنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر نے پے در پے استعفیٰ منظور کرکے پی ٹی آئی کی اسمبلی میں واپسی کا راستہ بند کردیا۔پی ٹی آئی جو حکومت گرانے نکلی تھی جہاں اپنے قومی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہوئی تو دوسری جانب صوبائی حکومتوں کو بھی گھر بھیج دیا۔ پی ٹی آئی اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ ملکی معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ انتخابات در انتخابات کیلئے اربوں روپوں کا بندوبست کرنا ملکی معیشت کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے لیکن انہیں اس امر کا زعم ہے یا غلط فہمی کہ وہ عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت میں ہی آئیں گے اور وہ سب کچھ کریں گے جو پہلی حکومت میں نہ کر سکے۔
کراچی انتخابات کا حلیہ دیکھنے کے بعد بھی کوئی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ انہیں ملک بھر میں ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو اس پر انہیں کوئی دلیل قائل نہیں کر سکتی کہ یہ پاکستان ہے یہاں پل بھر میں ایسا بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے کہ گھنٹوں گھنٹوں ملک میں تاریکی چھا جاتی اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ 2018 کا الیکشن ایک متنازع انتخابات تھے۔ اب تو یہ ڈھکی چھپی بات ہی نہیں رہی کہ ان انتخابات کو کیوں مینج کیا گیا تھا۔ اب جبکہ جانب دار غیر جانب دار دکھائی دے رہے ہیں اور شاید پہلی بار ایسا ہو کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مداخلت نہ ہو تو صرف شخصی شہرت کے نام پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ حیران کن ہی نظر آتا ہے جبکہ مجموعی طور پر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا عوامی کارنامہ نظر نہیں آتا کہ جو عوام کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے مثال بنا کر پیش کیا جا سکے سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجائے گی تو موجودہ حالات میں ان کی یہ حکمت عملی موثر نظر آتی ہے کہ نا اہلی اور نا لائقی کو میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے اس طرح دبا دیا جاتاہے کہ چند روز کے اندر اندر نیا بیانیہ بن جاتا ہے اور عوام بھول جاتے ہیں کہ بدترین حالات کا ذمے دار کون تھا۔ جب عوام ہی یاد نہیں کرنا چاہتی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے کا بھی کیا فائدہ۔
ملک میں انتخابی ماحول بنانے کیلئے کارکردگی کے بجائے الزامات کی سیاست سے فضا مکدر رہے گی۔ کچھ ہفتوں بعد ہی مملکت کے نصف سے زیادہ حصے میں انتخابی مشق شروع ہوسکتی ہے، لیکن با شعور عوام انتخابات کو قومی خزانے پر بڑا بوجھ قرار دے رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے بعد عام انتخابات کا مرحلہ چند مہینوں کے فاصلے پر ہوگا، دو صوبائی حکومتوں میں الیکشن عام انتخابات میں اثر رسوخ کے استعمال کے زد میں رہیں گے۔ نگراں سیٹ اپ ان دونوں صوبوں میں نہیں ہوگا اور عام انتخابات میں حکومتی وسائل کا استعمال کوئی بھی جماعت کھل کر کرے گی۔ان حالات میں قومی انتخابات میں صوبائی حکومتوں کے مداخلت کے بعد سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔ انتخابات وقت پر ہونا ممکن نظر نہیں آرہے ، حالانکہ 71ارب روپے کے سرکاری اخراجات کے مقابلے میں مبینہ طور پر ایک ہزار ارب روپے کا کالا دھن بھی باہر آئے گا، اس سے کچھ شعبوں کے مزدوروں کو فائدہ پہنچے گا ۔ کالا دھن پانی کی طرح بہانے کی روایت ہر عام انتخابات کا حصہ رہی ہے۔واضح رہے کہ ایک بڑے جلسے کا عمومی خرچا 70لاکھ روپے آتا ہے ، جس میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات شامل نہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا واحد آپشن سیاسی جماعتوں کے درمیان تلخی کا ختم ہونا اور اختلافات کو صرف سیاسی سطح تک محدود کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان گرما گرمی اور تلخی اس قدر بڑھ چکی کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں، ان حالات میں عوام بھی منقسم ہیں۔ انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے انہی سیاسی جماعتوں نے کردار ادا کرنا ہوگا جن کی وجہ سے سیاسی میدان میں آگ لگی ہوئی ہے اور جو اس میدان میں اترتا ہے اس کے پاؤں جلنے لگ جاتے ہیں۔ عوام کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے انہیں اپنے دائیں بائیں کے لوگوں کو خواب غفلت سے اٹھانے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ انہیں بیدار کئے بغیر معاشرے سے نفرت کے دیوار کو ختم کرکے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔آزادی کا لفظ تو ہر مقام اور ہر زبان میں ایک ایک سانس میں دہرایا جاتا ہے اور دھرایا جاتا رہے گا لیکن اس کا صحیح مفہوم بالعموم نگاہوں سے اوجھل ہی رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button