Abdul Hanan Raja.Column

دعاؤں کا حصار .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو جنت میں اپنے پڑوسی سے ملنے کا اشتیاق ایک قصاب کے گھر لے گیا۔ حضرت موسیٰ اس کے بلند مقام کی وجہ کے مشتاق تھے۔ اس خوش بخت نے اللہ کے نبی کو کھانا پیش کیا اور خود بھی کھانے بیٹھ گیا مگر پہلے لقمے قریب تخت پوش پر بیٹھے ضعیف العمر مرد اور خاتون کو دیتا اور پھر خود کھاتا،اختتام پر قصاب کے ضعیف العمر والدین نے اپنے سعادت مند بیٹے کے لیے جنت میں حضرت کلیم اللہ کا پڑوس مانگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ سن کر گویا ہوئے کہ میں ہی موسیٰ ہوں تو فرط محبت سے انکی چیخ نکلی اور وہ راہ عدم کو سدھار گئے۔ پسر سعادت مند نے بتایا کہ یہ عمر بھر موت سے قبل آپ علیہ السلام کی زیارت کے متمنی رہے۔
سیرت نبویﷺ کا مطالعہ کریںاور تاریخ کے اوراق میں جھانکیں تو اس باب میں کتنے موتی، سبق آموز واقعات، کیا منظر ہو گا آقا کریم ﷺ نے صحابی کے شکوہ کہ اس کے والد اس کا مال بلا اجازت خرچ کر دیتا ہے، کے جواب میں فرمایا کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے، اور اسے تین بار دہرایا۔یہ واقعہ آج کی نسل نو اور بڑھتے معاشرتی بگاڑ میں اولاد کے لیے مشعل راہ ہے کہ معاشرتی، عائلی اور انسانی زندگی کا حسن اسوہ رسول ﷺ کے انہی پہلوئوں میں پنہاں اور ترقی، کامیابی اور عظمت کے جن میناروں پر چڑھنے کا ہمیں جنون جبکہ وہ زینے ہمارے گھروں میں موجودہیں مگر کیا کریں کہ ہماری بلا تربیت تعلیم نے وہ راستے ہی گنوا دئیے جو عظمت رفتہ اور دنیا و آخرت میں کامیابی کو جاتے تھے۔ بدقسمتی ٹھہری کہ مغربی تہذیب اور غیر اسلامی ثقافت جب سے ہمارے معاشرے میں در آئی تو ماضی کی روایات اور اقدار کی رخصتی اور رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ پر جدیدیت اور روشن خیالی اور نظام تعلیم نے نکال دی۔اسلامی معاشرے میں یہ بات معروف تھی کہ رزق و عمر میں اضافہ اور برکت والدین کے حق ادب میں پنہاں ہے۔ ادب کے معاشی پہلوئوں کاجائزہ لیا جائے تو اس کی برکات بارے رحمت عالم ﷺکے کئی ارشادات ہیں آقا کریم ؐنے فرمایا کہ تین دعائیں رد نہیں ہوتیں، مظلوم کی فریاد، والدین کی اولاد کے لیے اور مسافر کی دعا۔ حدیث مبارکہ حق مگر پھر بھی ہم معاشی ترقی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، کاروباری ہیں تو وہ اپنے گاہکوں کے اور ملازم
ہے تو اپنے آفیسر کے آگے بچھے جاتے ہیں مگر جھکتے نہیں تو والدین کے سامنے۔ معاشرتی حوالے سے بھی ہمارے احوال قابل رشک نہیں کہ عائلی زندگیوں میں کئی ایک مسائل جنم لے چکے ہیں اور اس کی بڑی وجہ رویوں سے تحمل، برداشت اور ادب کی رخصتی ہے۔ پہلے ادوار میں والد کے سامنے اونچا بولنے کا تصور بھی محال تھااور والدین کی موجودگی میں اولاد ہمہ وقت مودب مگر زمانہ بدلا تو اقدار، روایات اور اخلاق رخصت ہوئیں۔ واعظین کے موضوعات میں چاشنی نہ رہی تو سامعین بھی بے ذوق ہوئے، مگر بھلا ہو مرکزی جامع مسجد ملک ریاض کے خطیب علامہ مفتی حبیب الرحمن مدنی کا کہ اپنی گفتگو میں اکثر و بیشتر سماجی موضوعات زیر بحث لاتے ہیں۔ قرآن و احادیث کے حوالہ جات پر مبنی ادب والدین بارے ان کی گفتگو نے یقیناً ہزاروں سامعین کو متوجہ اور اولادوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہو گا۔
زمانہ جدید ہو یا قدیم اس سے غرض نہیں کہ ادب ہمیشہ اہل تصوف و طریقت اور صاحبان شریعت کا امام رہا ہے۔ جاوید نامہ میں حضرت اقبال نے حسن ادب کو کیا خوب بیان کیا
آبروے گل ز رنگ و بوے اوستبے ادب
بے رنگ و بو، بے آبروست
( پھول کی آبرو رنگ اور خوشبو سے ہے، بے ادب رنگ و بو سے خالی ہے اس لیے بے آبرو ہے)
نوجوانے را چو بینم بے ادب
روز من تاریک می گردد چو شب
(جب میں کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میرا دن رات کی طرح تاریک ہو جاتا ہے)
تاب و تب در سینہ افزاید مرا
یاد عہد مصطفی آید مرا
(میرے سینے کا اضطراب بڑھ جاتا ہے اور مجھے حضور اکرم ﷺکا دور مبارک یاد آتا ہے۔ حضور اکرم ﷺکی مجلس مبارک میں ادب کو کس طرح ملحوظ رکھا جاتا تھا)
بے سکونی میں سکون قلب و جگر اور اضطراب سے چھٹکارے کے لیے یہ سبق امت اور بالخصوص نوجوانان پاکستان کو یاد کرنا ہو گا اور ادب جب والدین کے لیے ہو تو بندہ حدیث نبوی کے اس مفہوم کا مصداق بن جاتا ہے کہ اولاد گھر بیٹھے اک نگاہ سے حج مبروک کی سعادت حاصل کر لیتی ہے، ادب کی بے شمار روحانی، اخلاقی اور معاشرتی حکمتیں کہ جنہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے مگر اس کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کی پہلی ذمہ داری والدین پر کہ اقبال کی والدہ جب انہیں درس گاہ میں استاد کے پاس لے کے گئیں تو انہیں کہا کہ یہ میرا بیٹا اقبال ہے اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے متعارف کرا دیں۔ اولاد کا پختہ تعارف اللہ اور رسولﷺ سے کرا دیا جائے تو پھر یہ تادم مرگ بھولتا نہیں اور اس کے اثرات زندگی کے ہر گوشہ میں نظر آتے ہیں مگر کیا تعلیم و تربیت کا یہ اسلوب کسی گھر میں باقی رہ گیا۔
اولاد کے رویے سے شاقی والدین کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا وہ حق تربیت ادا کر رہے ہیں ؟ اگر وہ انگریزی تعلیم اور مغربیت کے دلدادہ ہیں تو انہیں اپنی اولاد سے خیر القرون کے رویہ کی توقع کیوں ! اس میں کیا شک ہے کہ امت کے گوشہ ادب پر جہاں مغربی روایات کے فروغ نے کاری ضرب لگائی وہیں ہمارے نظام و نصاب تعلیم کا بھی اس میں بڑا دخل ہے، اس معاشرتی بگاڑ کی ایک وجہ تربیت کا فقدان کہ والدین اور اساتذہ کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو نتائج ہمارے سامنے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صدر مملکت کو والدین کو گھر سے نکالنے کے خلاف آرڈیننس جاری کرنا پڑھا۔
ذرا سوچئے کہ یہ نوبت کیونکر آئی، ہماری تربیت گاہیں اور گھر تعمیر کردار میں ناکام کیوں ہونے لگے کہ شاید ہم نے وہ راہ چھوڑ دی جو ہمارے اسلاف کی رہی۔ معروف تابعی سعید بن مسید کا حال یہ تھا کہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے جب مجھے اولاد یاد آتی ہے تو میں نماز لمبی کر دیتا ہوں کہ والدین کے اعمال کے اولاد پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button