Columnمحمد مبشر انوار

تارکین وطن کا جذبہ .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

زندگی کے سفر میں انسان بہت سے ادوار سے گذرتا ہے، بے شمار لوگوں سے ملتا ہے، ان میں سے کچھ اپنا گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیںجبکہ کچھ کے ساتھ تعلق واجبی سا رہتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ کہیں بھی رہیں، ان کے ساتھ ایک قلبی تعلق برقرار رہتا ہے۔ایسے افراد گو کہ تعداد میں کم ہوتے ہیں مگر انسان اپنی زندگی میں ایسے افراد سے متعارف ضرور ہوتا ہے اور بسا اوقات زندگی کےجھمیلے، انسان کو در بدر لیے پھرتے ہیں یا انسان اپنی اہلیت و قابلیت کی بنا پر ، بہتر مستقبل کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اپنی جائے پیدائش سے نقل مکانی کرنے والے تارکین وطن، کسی بھی جگہ ہوں، انہیں اپنے وطن اورہم وطنوں کی تلاش رہتی ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہوں، وہ ہم وطن تلاش کر لیتے ہیں۔ یوں دیار غیر میں وطن کی خوشبو اپنے ہم وطنوں میں ڈھونڈنے کی سعی جاری رہتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں ہم وطنوں کی تعداد کثرت میں ہو وہاں ہم خیال و ہم آہنگ مل کر کچھ تنظیمیں بھی بنا لیتے ہیں تا کہ اپنے شعبہ میں دلی تسکین کے سامان ہوتے رہیں۔پاکستانیوں کی ایک بڑی تعدادمشرق وسطی میں گذشتہ کئی دہائیوں سے سکونت پذیر ہے اور گو کہ مشرق وسطی کے قوانین قدرے سخت ہیں اور ایسی تنظیموںکی چنداں اجازت نہیں دیتے تاہم اس کے باوجود احباب ادبی، سیاسی و سماجی تنظیمیں بنا کر اپنی تسکین کا سامان ڈھونڈ لیتےہیں۔ سعودی عرب میں بھی پاکستانیوں کی ایسی بہت سی تنظیمیں موجود ہیں جو ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو اپنی مہارت اورقابلیت کے اظہار کا موقع فراہم کرتی رہتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی تنظیمیں اور ان کے عہدہ داران، گو کہ یہاں سیاست کی اجازت قطعی نہیں لیکن اس کے باوجود، یہاں اپنی سیاست کا شوق پورا کرتی ہیں ، پاکستان سے آئے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں اورتارکین وطن کے مسائل پر ان سے بات چیت کرنا، خواہ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں، ان کی آمین ترجیح رہتی ہے۔ سعودی عرب میںسیاسی سرگرمیوں پر سختی گذشتہ برا رجیم چینج کے بعد، حرمین میں ہونے والے انتہائی نامناسب روئیے کے باعث، شدید قانونی کارروائی کے بعد بہت حد تک محدود ہو چکی ہیں کہ اس سے سعودی عرب میں رہنے والی دیگر ملکوں کے شہریوں کو بھی شہ ملنے کاخدشہ تھا، جس کو سعودی حکومت نے بروقت کارروائی کرکے روک دیا ہے کہ یہاں اپنے قوانین ہیں اور ان پر بلا امتیاز سختی سےعملدرآمد کروایا جاتاہے،سفارتخانہ پاکستان کا کردار بھی اس حوالے سے محدود نوعیت کا ہے کہ سفارتخانہ ایک طرف دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے کوشاں رہتا ہے تو دوسری طرف مملکت میں موجود پاکستانیوں کے خدمت میں مصروف عمل نظر آتا ہے اور تیسری طرف سفارت خانہ کا کردار تارکین وطن کو مقامی قوانین پر عمل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اس محدود کردار اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر، سفارت خانہ خواہش اور کوشش کے باوجود تقدس حرمین میں ملوث پاکستانیوں کی خاطر خواہ مددکرنے سے قاصر رہا ہے کہ یہاں کے قوانین سے مفر ممکن نہیں اور کئی ایک احباب کو سعودی عرب سے واپس بھیج دیا گیا ہے۔
بہرکیف سیاسی وابستگیوں کے علاوہ بھی یہاں بہت سی دوسری تنظیمیں روبہ عمل ہیں، جن کا مقصد بہرطور تارکین وطن کی خدمت ہے، اس تناظر میں یہاں چند ایک تنظیموں کا مختصر ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن میں سرفہرست پاکستان حج رضاکار گروپ ہے جو حج کے دوران پاکستان سے آئے زائرین کو مناسب رہنمائی اور خدمات مہیا کرتا ہے، معذور اور عمر رسیدہ افراد کو حج میںپیش آنے والی مشکلات میں مددگار نظر آتا ہے۔ پاکستان حج رضاکار گروپ کی ان خدمات کو اولا بے شمار مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان کی ثابت قدمی، خلوص نیت اوراللہ کے جذبے نے نہ صرف پاکستانیوں کے دلوں میں گھر کیا ہے بلکہ سعودی حکومت بھی اب اس تنظیم سے وقتاً فوقتاً مدد لیتی رہتی ہے اور کرونا کے دنوں میں اس تنظیم نے حکومتی سرپرستی میں متاثرین تک راشن پہنچانے کا فرض بخوبی ادا کیا۔ گذشتہ حج کے دوران، سعودی حج وزارت نے بھی اس گروپ کی خدمات سے افادہ اٹھایا اور اس گروپ کے نظم وضبط کو سراہا۔ اسی طرح یہاں اوورسیز کمیونٹی کے دو گروپ بروئے کار ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں تارکین وطن کی بھرپور خدمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ادبی حلقوں میں بھی کئی ایک تنظیمیں موجود ہیں اور اردو ادب کی خدمت کرتی نظر آتی ہیں، اور ان تنظیموں سے کئی ایک نامی گرامی اور صاحب کتاب افراد نے ملک کا نام روشن کیا ہے، صحافتی برادری بھی اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں ۔ادبی حوالے سے سعودی عرب کی سب سے پرانی تنظیم پاکستان رائٹرز کلب، گذشتہ قریباً چار دہائیوں سے مملکت میں لکھاریوں کو فروغ دے رہی ہے بلکہ اس سے منسلک فوٹو گرافرزکو بھی فروغ دینے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتی۔ اس تنظیم کے معروف فوٹوگرافر برادرم صنوبر کسی بھی تقریب کا لازمی جزورہے اور اپنے روزگار کے علاوہ وہ کمیونٹی کے لیے اپنی خدمات مہیا کرتے رہے۔ وقت بدلا اور صنوبر بھی بہتر مستقبل کے لیے امریکہ منتقل ہو گئے اور آج کل کیلیفورنیا لاس اینجلس میں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں، گذشتہ دنوں وہ کچھ عرصہ کے لیے ریاض تشریف لائے تو رائٹرز کلب کے موجودہ صدر نوید الرحمن نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔
سعودی عرب میں موجود تارکین وطن کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بالعموم اپنے پرانے رفقاء کے اعزاز میں ایسی تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں،اصل اور اہم بات اس ظہرانے میں برادرم صنوبر کی وہ گفتگو تھی، جو حقیقتاً اہم ہے اور تارکین وطن کا اپنے وطن کے لیے جذبہ ہے۔سعودی عرب یا دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں رہنے والے تارکین وطن سیاسی اعتبار سے زیادہ بروئے کار نہیں آ سکتے اور دوطرفہ تعلقات کی ذمہ داری سفارت کاروں پر رہتی ہے جبکہ مغربی ممالک میں رہنے والوں کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں اور وہ مقامی سیاست میں عملاً حصہ لے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانیوں کی ساری توجہ بالعموم بھارت کے تارکین وطن پر رہتی ہے اور موازنہ بھی انہی سے کیا جاتا ہے لیکن عملاً پاکستانیوں کی اکثریت اس میدان میں اترنے سے کتراتی ہے البتہ برادرم صنوبر نے آئندہ انتخابات کے حوالے سے کیلیفورنیا میں ڈاکٹر آصف کو متعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی ذاتی حیثیت میں کمیونٹی میںخاصے ممتاز ہیں اور عموماً سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے ہیں۔ متوقع انتخابات میں ڈاکٹر صاحب امریکی کانگریس کا رکن بننےکے لیے میدان میں ہیں اور اس سلسلے میں انتخابی مہم کی ابتداءً کر چکے ہیں، جو یقینی طور پر خوش آئند ہے کہ اب پاکستانی بھی اپنی ذاتی حیثیت میں ہی ، اس میدان میں اترتے نظر آتے ہیں۔ برادرم صنوبر نے ڈاکٹر صاحب کی ایک تقریب میں گفتگو کی ویڈیوبھی دکھائی جس میں ڈاکٹر صاحب کانگریس کا رکن بننے کے بعد، کانگریس میں پاکستانی مفادات کو تحفظ کرنے کا عزم کرتےدکھائی دیتے ہیں، گو کہ امریکی نظام میں رہتے ہوئے یہ اتنا آسان بھی نہیں تاہم ایک پاکستانی کا یہ عزم یقینی طور پر قابل ستائش ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اس معرکے میں سرخرو ہوں۔ دوسری طرف پاکستانی سیاسی جماعتیں اور نظام ایسا ہے کہ تارکین وطن کو پاکستان کی سیاست سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں تا کہ ان کی اجارہ داری قائم رہے، اس پس منظر میں تارکین وطن کے اس جذبہ کو سلام ہے کہ جو انتہائی نامساعد اور نا موافق حالات کے باوجود پاکستان کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button