ColumnImtiaz Aasi

سانحہ گجرات جیل اور حقائق .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

پنجاب کی جیلوں میں ہنگامہ آرائی اور خودکشی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔گجرات جیل میں گذشتہ تین سالوں میں ہنگامہ آرائی کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں قیدیوں نے بیرک کی دیوار سے کھونٹیاں اتارنے سے انکار کرتے ہوئے جیل میں ہنگامہ برپا کر دیا ۔گجرات جیسی حساس جیل میںکئی عشرے پہلے سزائے موت کے قیدیوں نے سرنگ لگا کر فراری کی جس کے نتیجہ میں اٹھائیس قیدی فرار ہوئے جو پکڑے گئے ان کے چالان نکال دیئے گئے تھے۔جیل کی بیرکس اور سزائے موت کے سیلوں میں بند رہ رہ کر قیدی نفسیاتی طور پر حساس ہو جاتے ہیں جنہیں کسی بات سے منع کرنے کے لیے بہت سے پاپٹر بیلنا پڑتے ہیں۔ گجرات جیل میں پے درپے ہنگامہ آرائی کے واقعات انتظامی کمزوریوں کاعکاس ہیں،جیلوں کی بیرکس اور سزائے موت کے سیلوں میں کپڑے لٹکانے کے لیے کھونٹیاں اور میخیںعام سی بات ہے ۔گذشتہ دنوں راولپنڈی جیل میں سزائے موت کے قیدی کی خودکشی کے واقعہ کے بعد آئی جی جیل خانہ جات نے ایک سرکلر کے ذریعے جیل حکام کو قیدیوں سے آزار بند اور دیواروں پر لگی کھونٹیاں اتارنے کی ہدایت کی تھی ۔سانحہ گجرات جیل کی ایف آئی آر کے مطابق قیدیوں نے جیل میں نصب جیمرز، فرنیچر سنٹرل ٹاور میں رکھی اشیاء تمام جلا دی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ خوشی محمدبیرک سے چھونٹیاں اتارنے کے لیے گیا لیکن حالات اس وقت کشید ہ ہوئے جب خوشی محمد نے چند روز پہلے منڈی بہاوالدین سے آنے والے حوالاتی علی منشا کو تھپڑ ماراتو قیدی مشتعل ہوئے لیکن ایف آئی آر میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ تمام ملبہ قیدیوں پر ڈالا گیا ہے ۔تعجب ہے ایف آئی آر میں اصل حقائق کو اس طرح چھپایا گیا ہے جیسے جیل ملازمین کی کوئی غلطی نہیں ہے ۔ کبھی اعلیٰ سطح پر ان باتوں کا نوٹس لیا گیا کہ موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی شلوار میں آزاربند کہاں سے آیا ہے اور دیواروں سے لگی میخیں کدھر سے آتی ہیں۔جیل مینوئل کے مطابق سزائے موت کے قیدی اپنی شلوار میں آزار بند کی بجائے لاسٹک ڈال سکتے ہیںلیکن ہوتا یہ ہے جب کسی قیدی کوپھانسی دی جاتی ہو تو اسے نئے سیل میں منتقل کرتے وقت اس کی شلوار میں آزار بند کی بجائے لاسٹک ڈال دیا جاتا ہے ورنہ سزائے موت کے قیدی آزار بند استعمال کرتے ہیں،مروجہ طریقہ کار کے مطابق قیدیوں کے ملاقاتیوں کے سامان کی تلاشی جیل سے باہر لی جاتی ہے جس کے بعد ان کے لائے ہوئے سامان کو سکیننگ مشین سے گذرا جاتا ہے۔ سامان کو جیل کی ڈیوڑھی سے باہر ایک مرتبہ پھر تلاشی کے مرحلے سے گذارا جاتا ہے اس کے باوجود موبائیل ، آزار بند، کھونٹیاں اور میخیں اور دیگر ممنوع اشیاء کیسے اندر آجاتی ہیں؟گذشتہ تین سالوں کے دوران سنٹرل جیل راولپنڈی میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی خودکشی کے دو واقعات ہو چکے ہیں ۔چند سال پہلے اقبال نامی سزائے موت کے قیدی نے آزار بند سے پھندا ڈال کر خودکشی کر لی ۔اسی طرح چند ماہ پہلے سنٹرل جیل ساہیوال میں سزائے موت کے قیدی نے آزار بند سے پھندا ڈال کر خودکشی کی لہٰذا پے درپے خودکشی کے واقعات کے بعد قیدیوں سے افہام وتفہیم سے آزار بند اور کھونٹیاں واپس لی جا سکتی تھیں نہ کہ قیدی کو تھپڑ مارا جاتا۔اب ہونا کیا ہے گجرات جیل کے واقعہ کے بعد چند قیدیوں کو دوسری جیلوں میں منتقل کر دیا جائے گا اور معاملہ ختم ہو جائے گاحالانکہ آبائی اضلاع سے دور دراز کی جیلوں کی طویل مسافت اور مالی اخراجات قیدیوں کی بجائے ان کے اہل خانہ کو سزا دینے کے مترادف ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کوئی قیدی خودکشی کا خواہاں ہو تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔جیل میں آزاربند ،رسی اورمیخیں نہ بھی ہوں تو قیدی بیرک کے صدر دروازے جو لوہے کے بنے ہوتے ہیں یا سزائے موت کے قیدی اپنے پہروں کے جنگلوں سے سر پھوڑ کر خودکشی کر سکتے ہیں۔
دراصل قیدیوں کی اپنی ایک خاص نفسیات ہوتی ہے سمجھدار جیل ملازمین ہر قیدی کو اس کی نفسیات کے مطابق ڈیل کرتے ہیںجس کی وجہ
سے بڑے سے بڑا سانحہ رونما ہونے سے بچ جاتا ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات نے ڈی آئی جی سعید اللہ گوندل کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میںہنگامہ آرائی کے ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اصل بات یہ ہے کہ جس روز جیلوں سے سب اچھا ختم ہو جائے گا نہ تو آزار بند اور نہ ہی کوئی اور غیر قانونی اشیاء اندر آسکیں گی ۔ آئی جی جیل خانہ جات نے اب تک جو اقدامات کئے ہیں کافی حد تک بہتر ہیں لیکن جیلوں کی فیکٹریوں، لنگرخانوں اور تلاشی والی جگہوں اور قیدیوں اور حولاتیوں کی گنتی کے عوض سب اچھا ختم کئے بغیر جیلوں کے حالات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے خواہ کوئی کتنے بھی اقدامات کرلے۔جیلوں کے انتظامی امور میں ایک بڑی خرابی یہ ہے ایک ہی ریجن میں کام کرنے والے ہیڈ وارڈرز اور وارڈرز وقفے وقفے سے من پسند جیلوں میں تعینات ہوتے رہتے ہیں ۔جب تک ریجن کے اندر تبادلوں کا نظام درست نہیں ہوگا مبینہ کرپشن کا خاتمہ خواب رہے گا۔جہاں تک سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کے تبادلوں کی بات ہے، عثمان بزدار اور چودھری پرویز الٰہی کے دور میں سب اچھا کئے بغیر افسران کے تبادلے نہیں ہوتے تھے۔تبادلوں کے سلسلے میں جب تک لین دین ختم نہیں ہوگا اور میرٹ پر تبادلے نہیں ہوں گے جیلوں میں کرپشن کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا۔ہونا تو یہ چاہیے جیلوں میں تلاشی کے دوران کسی قیدی یا حوالاتی سے ممنوع چیز برآمد ہونے کی صورت میں بیرک کے انچارج افسر سمیت اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے خلاف کارروائی عمل میںلائی جائے محض ہیڈ وارڈر اور وارڈر کو سزا دینے سے حالات درست نہیں ہوسکتے۔ دستیاب ویڈیو کے مطابق ضلعی پولیس کے ملازمین اندرون جیل آنسو گیس کا استعمال کر تے دکھائی دے رہے ہیں۔ جہاں تک جیل ملازمین کے پاس اسلحہ کی بات جیل ملازمین پاس چھڑی نہیں ہوتی تو اسلحہ تو دور کی بات ہے۔بہرکیف قیدیوں اور حوالاتیوں سے سخت لہجے میں بات کی بجائے دھیمے لہجے میں بات کی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہنگامہ آرائی جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button