تازہ ترینخبریںدنیا

سویڈن میں قرآن نذرآتش: ’نیٹو رکنیت پر ترکی کی حمایت بھول جائیں، ہم سے رحم کی توقع نہ رکھیں‘

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے سویڈن سے کہا کہ اس کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیے جانے کے بعد وہ نیٹو میں شمولیت کی اپنی کوشش میں ترکی سے حمایت کی توقع نہ رکھے۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال یوکرین اور روس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ امریکہ اور یورپی ممالک کی فوجی تنظیم نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان دونوں یورپی ممالک نے نیٹو کی رکنیت کے لیے باقاعدہ درخواست بھی دے رکھی ہے۔

لیکن ترکی نے نیٹو کے رکن کے طور پر اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے اُن کی درخواست کو روک دیا تھا۔ ترکی کے اس اقدام کے بعد سے سویڈن میں ترکی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

ان مظاہروں کے دوران سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر مذہب اسلام کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کا نسخہ بھی نذر آتش کیا گیا جس کے بعد سعودی عرب اور پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک نے اس عمل کی سخت مذمت کی ہے۔

اس سے چند روز قبل سویڈن میں کچھ کرد مظاہرین نے ترک صدر اردوغان کا پتلا الٹا لٹکا دیا تھا۔

دنیا کے کئی ممالک نے سٹاک ہوم میں قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی ہے۔ ان ممالک میں ترکی بھی شامل ہے۔

ترک صدر اردوغان نے کہا کہ ’سویڈن کو اب ہم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ترکی نیٹو میں شمولیت کی اس کی کوششوں میں تعاون کرے گا۔ جن لوگوں نے سفارت خانے کے سامنے ہمارے ملک کی توہین کی ہے، وہ اپنی درخواست کے حوالے سے ہم سے کسی رحم کی توقع نہیں کر سکتے۔‘

واضح رہے کہ سویڈش حکومت نے گذشتہ اتوار کو ہونے والے احتجاج کی اجازت پہلے ہی دے رکھی تھی۔ تاہم مظاہرین کی جانب سے اس بات کو کوئی عندیہ نہیں دیا گیا تھا کہ ان کا منصوبہ بطور احتجاج قرآن کے نسخے کو جلانا تھا۔

اسے مذہب کی توہین قرار دیتے ہوئے اردوغان نے کہا ہے کہ آزادی اظہار کی آڑ میں اس عمل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

سویڈن کی حکومت نے بھی اس احتجاج کی مذمت کی ہے۔

سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بل سٹورم نے اسے ’خوف پیدا کرنے والا‘ واقعہ قرار دیا۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں یہاں کی حکومت یا مظاہرے میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ان کی حمایت کروں۔‘

سویڈن کی حکومت نے اردوغان کے اس بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ سویڈن کے وزیر خارجہ بل سٹورم نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر کچھ کہنے سے پہلے اردوغان کے بیان کو پوری طرح سمجھنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’سویڈن نیٹو کی رکنیت کے معاہدے کا احترام کرے گا جو سویڈن، فن لینڈ اور ترکی کے درمیان طے پایا ہے۔‘

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے بھی اس معاملے پر کہا ہے کہ نیٹو ممالک میں اظہار رائے کی آزادی ایک قیمتی چیز ہے اور ایسی کارروائیاں یقیناً نامناسب ہیں لیکن یہ خود بخود غیر قانونی نہیں ہو جاتیں۔

مسلم اکثریتی ملک ترکی نے اس احتجاج کی اجازت دینے کے سویڈش حکومت کے فیصلے کو مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

اردوغان نے کہا ہے کہ ’کسی کو بھی مقدس چیزوں کی بے عزتی کرنے کا حق نہیں ہے۔ جب ہم کچھ کہتے ہیں تو پورے خلوص کے ساتھ کہتے ہیں۔ اور جب کوئی ہماری بے عزتی کرتا ہے تو ہم اسے ان کی جگہ دکھاتے ہیں۔’

بتا دیں کہ اس واقعے کے بعد ترکی نے سویڈن کے وزیر دفاع پال جانسن کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ ترکی نے کہا کہ یہ دورہ اب ’اپنی اہمیت اور معنی کھو چکا ہے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button