ColumnJabaar Ch

اسکاٹ لینڈسے طارق کاخط! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

ملک میں سیاست اتنی تیزی سے بدلتی ہے کہ ایک کالم کے بعد دوسرے کالم کے وقفے کے دوران لگتا ہے اتنے واقعات گزر گئے کہ شاید سالوں بیت چکے ہیں۔پی ٹی آئی نے اپنی دواسمبلیاں تحلیل کرکے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں قبل ازوقت انتخابات کی راہ ہموارکردی ہے ۔الیکشن کی تاریخیں آنے میں بس تھوڑاوقت باقی ہے ۔اسی دوران سسٹم کونو ماہ تک تلپٹ کرکے اس ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باباآدم عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا اعلان کیا۔ملتان سے تعلق رکھنے والے اورہر وقت اہم عہدوں کے پیچھے بھاگنے اور ہر بار محروم رہنے والے شاہ محمود قریشی کو عمران خا ن نے واپس جاکر اپوزیشن لیڈر بننے اورپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اُچک لینے کاٹاسک دیا۔ شاہ صاحب ابھی دل میں خوشی کے لڈودبائے باہر ہی نکلے تھے کہ پی ڈی ایم نے جوابی چال چلتے ہوئے پی ٹی آئی کے پینتیس ایم این ایزکے استعفے قبول کرکے ان کو ڈی نوٹیفائی کردیا۔ان میں سے اپوزیشن لیڈر کا خواب دیکھنے والے شاہ محمود قریشی بھی شامل ہیں۔شاہ صاحب کے ساتھ یہ واردات ظلم ہے کہ وہ دوہزار دوسے وزیراعظم،اپوزیشن لیڈر، وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی آس لیے ایک پارٹی سے دوسری میں بھاگتے پھررہے ہیں لیکن کوئی آسیب کا سایہ ہے کہ منزل ا ن کے سامنے لاکرآنکھوں سے اوجھل کردیتا ہے۔پی ٹی آئی نے کل دوبارہ اسمبلی میں جانے کیلئے اجلاس بلایا۔ابھی پی ٹی آئی کے ارکان کے پی ہاؤس میں جمع ہی ہوئے تھے کہ سپیکر نے مزیدپینتیس ایم این ایزکے استعفے قبول کرلیے۔ ملک میں تماشاجاری ہے اوراس کے خاتمے کاشاید اعلان کرنے والاکوئی نہیں۔
میں نے سیاست کی موجودہ صورتحال پرلکھنے کا سوچا تھا کہ اسکاٹ لینڈ سے رانا طارق نوازکا لمبا چوڑا پیغام موصول ہوا۔ان کا یہ پیغام کیا ایک خط تھا جو انہوں نے میرے گزشتہ پیر کوشائع ہونے والے کالم’’لُٹ گیا کوچہ جاناں میں خزانہ دل کا‘‘ پرمجھے ارسال کیا۔ یہ اس کالم پرتنقید بھی کی ہے،فیڈ بیک بھی۔اور ان کی رائے بھی۔راناطارق میرا بہت اچھا دوست ہے۔پنجاب یونیورسٹی میں ہم ایک ساتھ پڑھے۔وہ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہے، طارق کو سیاست،معیشت اور صحافت سے شغف ہے وہ سوشل میڈیا پر اپنے تبصرے اور رائے کا اظہاربھی کرتے رہتے ہیں اوروہ اسکاٹ لینڈکی حکمران سیاسی جماعت کے فعال اور سرگرم رکن اورکارکن ہیں۔ میں ان کے اس خط کو اسی طرح اس کالم کا حصہ بنارہا ہوں تاکہ سب لوگوں تک ان کی رائے اسی طرح پہنچ جائے۔
چودھری صاحب السلام و علیکم!
’’لٹ گیا کوچہ جاناں میں خزانہ دل کا‘‘میں جناب کے تجزیے سے تھوڑاسا اختلاف ہے۔ سیاست پیر نصیرالدین نصیر صاحب کی شاعری ہے نہ شاعری جیسی۔ اس میں بہادری اور بزدلی کا بھی کوئی گزر نہیں ہوتا۔ سیاست معاشرت سدھارنے کا ایک مقدس کام ہے۔ اس کو دیکھنے کا ہر کسی کا زاویہ بھی الگ الگ۔ مگر خیال رہے کہ اس کھیل کو کھیلنے والے کے دماغ اور گیم پلان کو کوئی پڑھ اور سمجھ نہیں سکتا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کھیل کے پرانے پیٹرن کو دیکھتے ہوئے کچھ چالوں کی پیش گوئی کی جا سکتی ہو مگر کھیل کو آخر تک دیکھے بغیر مکمل نتیجے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
جناب آج کل ہار جیت تو تو جنگوں میں نہیں ہوتی تو سیاست میں کیسی ہار جیت۔ سیاسی جماعتیں حالات کے پیش نظر اپنا پروگرام بناتی ہیں اور عوام کو اپنے حق میں یا دوسروں کے مخالف کرتی ہیں۔ آپ نے جس طرح عمران خان کو بہادر اور اس کے مخالفین کو بزدل بتایا ہے، حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں۔ فاتح بہادر اپنی تمام تراکیب، لفظی گولہ باری، سیاسی چالوں، مکر و فریب کے باوجود زخمی ہو کر اپنے بل میں خالی ہاتھ بیٹھا ہے۔ عوام سے دور صرف سوشل میڈیا کی چکا چوند سے محظوظ ہو رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ وہ تخت بابری پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے براجمان ہے۔
دوسری طرف اپنے جن سیاسی مخالفین کو بزدل، کمزور، ناکام اور ریلو کٹے گرد انتا ہے وہ اس وقت مکمل کمانڈنگ پوزیشن میں ہیں۔ انکے ہی نامزد کردہ گورنروں نے دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی سمریوں پر دستخط کر کے انکی سیاسی کمر دوہری کی ہے اور رہی سہی کسر ان جماعتوں کے متفقہ سپیکر نے انکے پینتیس ارکان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کرواکے کر دی ہے، اب اس فاتح کے پاس زمان پارک کے علاوہ قومی اور صوبائی سطح پر کوئی آنگن ہی نہیں بچا ۔
انکی مقبولیت کے زعم کو کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے زمین بوس کر دیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انکی پارٹی نے بزور بازو انہیں پہلے والی گیارہ سیٹوں کی طرح ان پینتیس سیٹوں پر خود انتخابات لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مقبولیت اور بہادری یہ نہیں ہوتی کہ قیادت ہر قومی، صوبائی اور لوکل سیٹ پر الیکشن لڑتی پھرے۔ طاقت اور مقبولیت یہ ہوتی کہ قائد جب، جہاں اور جس کو چاہے نامزد کر دے اور وہاں سے الیکشن جیت جائے۔رہی سیاست دانوں کی بیرون ملک رہ کر سیاست کرنے کی بزدلی کی بات، تو جناب وہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک باجوہ صاحب،انکے جیسے جرنیل، بیوروکریٹ،جج، سیاستدان اور سرکاری عمال باجوہ صاحب کی طرح دبئی کے ٹریفک اشاروں پر (پاکستان میں)عوام کو انتظار کرتے نظر نہ آ جائیں۔ یہ ہو سکتا ہے اور یہ بھی معاشرت کے قوانین کے تحت ہو گا۔ اور یہ قوانین سیاستدانوں نے بنانے اور ان پر عمل بھی کروانا ہے۔ مگر یہ ابھی تک کر نہیں پارہے۔ جس دن یہ ہو گیا اس دن کسی بھی سیاستدان کو ملک سے بھاگ کر کہیں بھی پناہ نہیں لینا پڑے گی۔ وہ ملک میں ہی رہ کر ملکی سیاست کریں گے۔ ابھی وہ وقت دور ہے۔
رہ گئی بہادری اور بزدلی کی بات تو حضور! بہادری،اور بے وقوفی میں فرق ملحوظ خاطر رکھیں۔ الطاف حسین اور مشرف سے بڑے بہادر ہماری دھرتی نے جنم نہیں دئیے۔ بھگت سنگھ سے بڑا کوئی بہادر پنجاب نے پیدا نہیں کیا۔ بھٹو جیسا پاپولر، کراؤڈ پلر، شعلہ بیان اور عوامی جذبات کو اپنا کرنے والا لیڈر بھی وطن عزیز نے نہیں دیکھا، الطاف حسین اور مشرف سب بہادری اور طاقت ہونے کے باوجود جلا وطنی میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور اور بھٹو صاحب سب خوبیوں کے باوجودپھانسی چڑھا دئیے گئے۔صرف ایک بات، جو اقتدار کے ایوانوں میں سوتے، اٹھتے بیٹھتے اور جیتے ہوں، انکی تدبیریں ہم جیسوں سے تھوڑا الگ ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے جو ہمیں دکھتا ہو، بس وہی دکھایا جا رہا ہو۔ صرف اتنی سی گزارش ہے کہ خان صاحب کو دو دن اندر ہونے دیں، آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ وہ کتنا بہادر ہے۔ وہ بہادر ہے یا نہیں، مگر مجھے پتا ہے وہ بے وقوف ہرگز نہیں۔
انتخابی میدان لگنے دیں، جب بھی لگے، سب مقبولوں کی مقبولیت اور سب گرگٹوں کے رنگ پتا چل جائیں گے۔ انتخاب سوشل میڈیا پہ نہیں ہوتے میدان میں بیلٹ باکسز میں ڈالے گئے ووٹوں کے بل بوتے پر جیتے جاتے ہیں۔ اگر ان انتخابات میں’’ شفقت پدری‘‘سے نتائج تبدیل اور رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بٹھا نہ دیے جائیں تو سب سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو پولنگ کے اختتام پر ہی پتا چل جاتا ہے کہ انکی جیت ہوئی یا ہار۔ایسی صورت میں انتخابی نتیجہ تو بس ایک رسمی کاروائی ہوتی ہے۔
رانا طارق نواز،اسکاٹ لینڈ
آپ نے رانا صاحب کا ایک کالم پر محیط خط اور ان کی رائے پڑھ لی۔ان کی رائے سرآنکھوں پر لیکن میراموقف یہی تھا اورہے کہ بہادراور جرأت مند فیصلوں کو پسندکرنا اور لیڈر کو اپنے ساتھ بلکہ اپنے سے آگے کھڑادیکھ کر اس کو سراہنا ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ملک میں حالات اچھے برے ہوسکتے ہیں لیکن جس نے بھی سیاست اس ملک میں کرنی ہے اس کو اسی ملک میں رہنا،جینا اورمرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button