Ali HassanColumn

کون بنے گا کراچی کا میئر ؟ .. علی حسن

علی حسن

 

کراچی شہر میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج مکمل نہ ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اکثریت کی دعویٰ دار ہیں ۔ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے لیکن ان دونوں کے درمیاں تحریک انصاف ایسی جماعت ہے جس کی پوزیشن تیسرے نمبر پر ہے ۔ ابھی تک پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان ہی گیند کھیلی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کو تحفظات سے متعلق ہر ممکن اقدام کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔
پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ کراچی کا میئر ان کا نامزد کردہ ہو۔ اس کا اظہار بلاول بھٹو زرداری بھی کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے عہدے کیلئے طویل عرصہ سے مہم چلائی ہوئی تھی۔ کراچی میں 1987 کے بعد سے میئر ایم کیو ایم کا ہی منتخب ہوتا رہا۔ اس سے قبل عبدالستار افغانی مرحوم اور نعمت اللہ مرحوم میئر منتخب ہوئے تھے ۔ مرحوم افغانی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے عمر یوسف ڈیڈا مرحوم ڈپٹی میئر تھے جو اختلافات کی وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے ۔ کراچی کے سیاسی منظر سے ایم کیو ایم کے غائب ہونے کے بعد پیپلز پارٹی اپنا دعویٰ درست ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہی کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت ہونے کا منصب ضرور حاصل کر لیتی اگر اس نے کراچی شہر کی مہاجر آبادی کو دیوار سے لگانے کی بجائے گلے سے لگایا ہوتا۔ حلقہ بندیوں کے معاملہ پر اختلافات پر ایم کیو ایم نے عین انتخابات کے موقع پر بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ بائیکاٹ کا جو بھی اثر ہوا ہو لیکن ایم کیو ایم لندن نے بھی ووٹروں سے اپیل کی کہ ووٹ دینے ہی نہ جائیں۔ ایم کیو ایم پاکستان بائیکاٹ کی وجہ کچھ ہی قرار دے لیکن اس حقیقت کا اعتراف تو کریں گے کہ انہوں نے موجودہ بلدیاتی اداروں کے قوانین سے لے کر ان قوانین کے تحت ہونے والی حلقہ بندیوں پر سنجیدگی سے انہیں ترامیم یا تبدیل کرانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایم کیو ایم پاکستان، فاروق ستار کی ایم کیو ایم بحالی کمیٹی اور پاک سر زمین پارٹی کو یکجا کرنے کی کوشش، سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے کی لیکن اس وقت تک خاصی تاخیر ہو چکی تھی۔ گورنر کا استدلال یہ تھا کہ کراچی کے عوام بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ انہیں بہتر زندگی گزارنے اور حقوق کا حق حاصل ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ فارم 11اور 12کے مطابق ہم
نے 94نشستیں جیتی ہیں لیکن نتائج میں ہماری 9نشستیں کم کر دی گئی جس پر ہم نے احتجاج کیا اور الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا ان میں سے 3نشستیں ہمیں واپس مل گئی ہیں اور باقی 6کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا ہے۔ ہماری اس گنتی کو کم کرنے کیلئے اب دوبارہ گنتی کا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ دوبارہ گنتی کے نام پر دھاندلی کر کے جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی سیٹیں اور اکثریت کم کرنے کا عمل بند کیا جائے ، الیکشن کمیشن فوری طور پر ان آر اوز اور ڈی آر اوزکے خلاف کارروائی کرے جو جعل سازی کر کے اور غلط طریقے سے ووٹوں کے تھیلوں کی سیل کھول کر بوگس بیلٹ پیپرز بھر رہے ہیں فارم 11اور 12 کے بغیر دوبارہ گنتی کرا رہے ہیں۔یہ تمام سرکاری عملہ پیپلز پارٹی کے حق میں استعمال ہو رہا ہے۔ہم نے شہر میں سب سے زیادہ سیٹیں اور سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں ، پیپلز پارٹی نے نتائج میں تبدیلی کے بعد دوبارہ گنتی کے نام پر دھاندلی نہ روکی گئی تو ملک بھر میں تحریک چلائیں گے جس طرح جیتی ہوئی سیٹوں کا تحفظ کیا ہے اسی طرح دوبارہ گنتی کے نام پر اپنی سیٹیں کم نہیں ہونے دیں گے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی سیٹوں پر شب خون مارنے کا عمل بند کیا جائے۔ اہل کراچی نے جماعت اسلامی پر بھر پور اعتماد کر کے شہر کی سب سے بڑی پارٹی کی صورت میں عوامی مینڈیٹ دیا ہے۔کراچی کا میئر ہمارا ہی ہو گااور ایک مرتبہ پھر ہم شہر کی خدمت اسی طرح کریں گے۔ ہم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے کہتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو اس غیر قانون اور غیر جمہوری عمل سے روکیں۔ ہمارا الیکشن کمیشن سے بھی مطالبہ ہے کہ دوبارہ گنتی کے عمل میں متعلقہ امیدواروں اور الیکشن کمیشن کے نمائندوں کو بھی شریک کروایا جائے۔امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کراچی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری پارٹی کی سب سے ذمے دار شخصیت ہیں انھیں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کراچی کو کنفیوژن سے نکالیں اور مقامی پیپلز پارٹی کو ہدایات جاری کریں کہ جماعت اسلامی کا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کی 6 یوسیز میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے 23 جنوری کو سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کیسوں میں صوبائی الیکشن کمشنر سندھ، متعلقہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، آر اوز، جیتنے والے، دوسرے نمبر پر آنیوالے امیدواروں کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار کو صوبائی الیکشن کمیشن کے ذمے دار افسر نے بتایا کہ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج جانچنے اور اس کی تصدیق کا عمل جاری ہے، متنازع نتائج کی شکایات پر ری کائونٹنگ بھی جاری ہے، جماعت اسلامی نے ووٹوں کی گنتی میں گڑ بڑ کی شکایت کی ،جسے چیک کیا جارہا ہے، پریذائیڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران سے غلطیاں ہوسکتی ہیں اس لیے اب ریٹرننگ افسران نتائج کو ازسر نو مرتب کررہے ہیں تاکہ حتمی نتائج تیار کرکے انہیں اسلام آباد بھیجا جائے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے سندھ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن پر رپورٹ جاری کردی ہے۔ جس کے مطابق نتائج میں غیر ضروری تاخیر نے پْرامن اور منظم انتخابی عمل کو گہنا دیا۔ حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ 40 فیصد سے زائد رہا جبکہ کراچی میں ملیر کے سوا 20 فیصد سے بھی کم ٹرن آؤٹ رہا۔ سندھ میں پیر پگارو کی سربراہی میں قائم سیاسی جماعتوں کے اتحاد جی ڈی اے رہنماؤں نے کہا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے دونوں مراحل 26 جون 2022 اور 15 جنوری 2023 کو ہونے والے جھرلو الیکشن کو مسترد کرتے ہیں۔ عدالت کے ذریعے حالیہ الیکشن کو کالعدم قرار دلوائیں گے،یہ تاریخ کے بدترین الیکشن تھے، دھاندلی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے باوجود بھی الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا جس سے ان کے دھاندلی میں ملوث ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button