ColumnImtiaz Aasi

عجیب تماشا! .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ملک میں حکومت خواہ کسی جماعت کی ہو اس کامطمٔع نظر ملکی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، آج کے سیاست دانوں کا اقتدار میں آنے کا مقصد ماسوائے ذاتی مفادات کے اور نہیں ہوتا۔ملکی ترقی کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن بہت ضروری ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس کا بہت فقدان ہے۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہوا تو تحریک انصاف نے ایوان سے نکل کر سٹرکوں اور گلیوں کو سیاست کا مرکز و محور بنا لیا۔ عمران خان پارلیمنٹ میں رہتے تو موجودہ حالات میں اس سے بہتر کردار ادا کر سکتے تھے ۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان نے استعفے دئیے تو سپیکر نے الیکشن کمیشن کو محض اس وجہ سے بھیجنے سے انکار کر دیا کہ ہر رکن ہاتھ سے لکھا ہوا استعفے دے اور انفرادی طور سپیکر کے روبرو اپنے استعفے کی تصدیق کرے۔کئی ماہ تک استعفوںکو التواء میں رکھنے کے بعد جب پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں آنے کا عندیہ دیا تو35 استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھیج دیئے۔ پنجاب اورخیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل سے دونوں صوبوں کے الیکشن میںابھی تک کی اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان تنہا امیدوار ہوں گے اس طرح سیاسی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا جب عمران خان کے مدمقابل کوئی امیدوار نہیں ہو گا۔ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق نہ ہوا تو چیف الیکشن کمشنر کے نامزد نگران وزیراعلی کو چودھری پرویز الٰہی نے تسلیم کرنے سے انکار کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جبکہ قانونی طور پر چیف الیکشن کمشنر کے نامزد کردہ نام کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت اقتدار میں لائی گئی ہے، اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرنے کے سوا کوئی ایک کام ایسا نہیں جو حکومت نے ملک وقوم کے مفاد میں کیا ہو۔ اقتدار سنبھالتے وقت انتخابی اصلاحات لانے کا اعلان کیا نو ماہ ہو چکے ہیں ابھی تک معاملہ کھٹائی میں پڑا ہے۔عمران خان کے دور میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو تسلیم کیا گیا حکومت کے خاتمے کے بعد ابھی تک تارکین وطن کے ووٹ کاسٹ کرنے کاطریقہ کار طے نہیں ہو سکا ۔ عمران خان نے روس کا دورہ کیا تو طوفان برپا ہو گیا حالانکہ وزیراعظم کے دورے کا مقصد تیل اور گیس کا حصول تھا،چلیں موجودہ حکومت نے اس مقصد کیلئے اپنا وفد روس بھیجا جس نے تیل اور گیس کی درآمد کیلئے ابتدائی بات چیت کی اور اب روسی وفد معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے اور وفاقی کابینہ نے معاہدے کی منظوری دے دی ہے جوخوش آئند بات ہے۔
ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے کوئی حکومت بھی قدم اٹھائے وہ قابل تحسین ہے البتہ روس سے تیل اور گیس کی درآمد کے سلسلے میں پہل کرنے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے پہلے عمران خان نے ایوان میں جانے کا عندیہ دیا اور انہی کی جماعت کے فواد چودھری کا کہنا ہے تحریک انصاف کے ارکان ایوان میں نہیں جائیں گے۔عجیب تماشا ہے سیاست میں سنجیدگی کا عنصر ناپید ہوتا جا رہا ہے سیاست دان عوام کو بیوقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ معاشی حالات کی طرف آئیں تو رونا آتاہے برآمدات اور ترسیلات زر میں روز بروز کمی واقع ہو رہی ہے معاشی پہیہ جمود کاشکاہے ۔ڈالر کی کمی کی وجہ سے صنعتوں کا خام مال درآمد نہیں ہو رہا۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور روز بروز بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بیڈ گورننس کا یہ عالم ہے گندم کے وسیع ذخائر کے باوجود عوام آٹے کے حصول کیلئے در بدر ہیں۔وفاقی حکومت کی طرف سے افغانستان ہونے والی سمگلنگ روکنے کیلئے ابھی تک ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جواس کی دلیل ہے کہ گندم اور دوسری اشیاکی افغانستان سمگلنگ میں بڑوں کا بھی عمل دخل ہے۔ گندم کی افغانستان سمگلنگ روکنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے تو آٹے کابحران پیدا نہ ہوتا لہٰذایہ سب کچھ سمگلنگ کا کیا دھرا ہے۔ملک معاشی مشکلات کا شکار توہے اس کے ساتھ دہشت گردی کے عنصر نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو یکسو ہو کر ملکی مفاد میں کام کرنا چاہیے ۔بلوچستان میں دہشت
گردی نئی بات نہیں تھی اب ہمسایہ ملک ایران سے دہشت گردی کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے ۔تعجب ہے پاکستان، افغانستان اور ایران سب مسلمان ملک ہیں اور اسلامی نقطہ نظر سے سب آپس میں بھائی ہیں اس کے باوجود مسلمان ملکوں کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔آئینی طور پر دو صوبوں میں نگران سیٹ اپ کی نگرانی میں نوے روز میں ضمنی الیکشن ہونے چاہئیں لیکن موجودہ حالات میں ضمنی الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ۔ایک طرف ہم معاشی حالات کا رونا روتے ہیں خراب معاشی حالات کے باوجود دو صوبوں میں ضمنی الیکشن پر اربوں روپے خرچ ہو ں گے ملک کے معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر تو یہی تھا عام انتخابات کرا دیئے جائیں ورنہ ضمنی اور جنرل الیکشن کے انعقا د پر کثیر سرمایہ خرچ ہوگاجس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ عجیب تماشا ہے ملک معاشی طور پر کنگال ہے اور سیاست دانوں کو اپنے اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے عوام کو ہر روز اشیائے خورونوش نئے نرخوں پر مل رہی ہیں ۔مہنگائی نے عوام کابھرکس پہلے ہی نکال رکھا ہے آئی ایف ایم پروگرام کے تحت مزید مہنگائی کاطوفان آنے والا ہے۔مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی پر کنٹرول کیلئے قانون تو موجودہے عمل درآمد کا فقدان ہے ۔دراصل حکومت ہیجانی کیفیت کا شکار ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا کرنا کیا ہے۔ سیاست دانوں کو تماشا لگانے کی بجائے سر جوڑ کر ملکی استحکام اور عوام کے مسائل کا کوئی مثبت حل نکالنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button