تازہ ترینخبریںسیاسیات

نئی سیاسی جماعت کے قیام کی اطلاعات

اسلام آباد میں نئی سیاسی جماعت کے قیام کے حوالے سے اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں سے رابطہ کرکے نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جا رہی ہے۔

تاہم، کسی بھی مصدقہ ذریعے سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی۔

کہا جاتا ہے کہ نون لیگ کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس نئی جماعت کا حصہ ہوں گے۔

شاہد عباسی کے متعلق سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ انہوں نے نون لیگ سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ رابطہ کرنے پر شاہد عباسی نے اس بات کی تردید کی۔

انہوں نے نون لیگ سے نہ استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی وہ کسی نئی جماعت کے قیام کے حوالے سے کوششوں کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کئی فون کالز آئی ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر کسی نے یہ بات پھیلا دی ہے کہ انہوں نے نون لیگ سے استعفیٰ دیدیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لوگ کچھ سیمینارز کا انعقاد کر رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے لوگوں کو نئی سیاسی جماعت کے قیام کے حوالے سے قیاس آرائی کا موقع ملا ہے۔

رابطہ کرنے پر مفتاح اسماعیل نے بھی اس طرح کی باتوں کی تردید کی اور کہا کہ کراچی سے دو مرتبہ الیکشن ہارنے والا شخص کیسے سیاسی جماعت تشکیل دے سکتا ہے۔

شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بھی انہوں نے تردید کی کہ انہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دیدیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی کی طرح، مفتاح اسماعیل نے بھی یہی کہا کہ کچھ لوگوں کو لگتا ہوگا کہ نئی جماعت تشکیل دی جا رہی ہے کیونکہ میں نے اور میرے کچھ ہم خیال سیاست دان دوست اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں سیمینارز کا انعقاد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ان سیمینارز کے حوالے سے کوئی مخفی ایجنڈا نہیں ہے۔

انہوں نے اصرار کیا کہ یہ سیمینارز اُن مسائل کے حوالے سے منعقد کیے جا رہے ہیں جو پاکستان کیلئے باعثِ تشویش بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو مدعو کیا گیا ہے تاکہ ملکی مسائل پر اتفاق رائے حاصل ہو سکے۔

منگل کو مفتاح نے اس بارے میں ٹوئیٹ بھی کی تھی۔

انہوں نے اعلان کیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، فواد حسن فواد، خواجہ محمد ہوتی، حاجی لشکری رئیسانی، اسد شماد اور کئی دیگر لوگ بڑے ایشوز پر اتفاق رائے کیلئے کوشاں ہیں۔

’’ہم لوگ پاکستان بھر میں سیمینارز کا انعقاد کر رہے ہیں تاکہ عام پاکستانیوں کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے اور ساتھ ہی ان کا حل بھی تلاش کیا جا سکے۔ 75؍ سال بعد دیکھیں تو ملک کے آدھے بچے اسکولوں میں نہیں جاتے، 40؍ فیصد کی نشونما پوری نہیں ہوتی، 18؍ فیصد بچے ضاuع ہو جاتے ہیں، 28؍ فیصد کم وزن ہیں، ہر سال 55؍ لاکھ نئے بچے پیدا ہوتے ہیں، 8؍ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں، آبادی کا ایک بڑی حصہ زندگی بچانے کیلئے ضروری سرجری نہیں کر اسکتے، بیروزگاری عروج پر ہے، غیر موثر نظام کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔

ہمارے رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ مل بیٹھیں اور مسائل کا حل تلاش کریں۔ ہمارا پہلا سیمینار ہفتہ 21؍ جنوری کو ہوگا جو اس اتفاق رائے کی جانب ایک قدم ہوگا۔ براہِ کرم اس کوشش کی حمایت کیجیے گا۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ نون لیگ سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ ان باتوں کو پھیلا رہے ہیں جس کی شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے تردید کی ہے۔ دونوں کو وہ لیگی رہنما سمجھا جاتا ہے جنہوں نے معاشی مسائل سے نمٹنے کیلئے پارٹی قیادت کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔

شاہد عباسی نے تو کھل کر اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا ہے لیکن مفتاح نے کچھ ٹاک شوز میں تبصرے کیے جنہین شریف فیملی نے پسند نہیں کیا۔

مفتاح نے شکایت کی تھی کہ بحیثیت وزیر خزانہ انہیں شہباز شریف کابینہ سے نکلنے کیلئے پارٹی قیادت کی جانب سے شائستہ موقع فراہم نہیں کیا۔ وہ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں کے نقاد رہے ہیں اور ڈار کی جانب سے مالی معاملات سے نمٹنے کے طرز عمل پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں، وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ جب وہ وزیر خزانہ تھے تو ڈار بھی ان پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

دو دن قبل، وزیراعظم کے بیٹے نے ٹوئیٹ میں نام لیے بغیر سب کے سامنے مفتاح اسماعیل کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور کہا کہ گزشتہ تین وزرائے خزانہ جوکر تھے۔

سلیمان شہباز نے اسحاق ڈار کی تعریف کی۔ شاہد خاقان عباسی نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی پسندیدہ شخصیت رہے ہیں لیکن کچھ ماہ قبل پارٹی اجلاس کے دوران جب شاہد عباسی نے نواز شریف اور اسحاق ڈار کی رائے سے اختلاف کیا اور ان سے کہا کہ شہباز شریف کی حکومت کو فیصلے کرنے دیں یا پھر یہاں آ کر معاملات خود سنبھال لیں۔ اس پر نواز شریف اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ اُس وقت مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button