Columnمحمد مبشر انوار

یو ٹرن یا حکمت عملی .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

بلدیاتی سطح پرآخر کار سندھ میں ووٹ کو خوب ’’عزت‘‘ ملی اور تادم تحریر قریباً پورے سندھ میں پیپلز پارٹی کا طوطی بولتا سنا گیا ہے،آصف علی زرداری نے اپنا دعویٰ سچ ثابت کردکھایا ہے اور بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ’’زندہ جاوید‘‘ کر دیا ہے۔کراچی میں بالخصوص جماعت اسلامی کی کارکردگی توقع کے عین مطابق رہی اور امیر کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اس پس منظر میں کہ جب پورے سندھ میں پیپلز پارٹی انتخاب جیت رہی ہے، زبردست نتائج دئیے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ جمہوری طور طریقوں سے کس طرح روگردانی کر رہی ہے جبکہ ایک مرتبہ پہلے بھی بائیکاٹ کا خمیازہ بھگت چکی ہے لیکن بلدیاتی سطح پر کراچی اور حیدرآباد سے اتنی آسانی سے دستبر داری متوقع نہیں تھی۔ عام انتخابات میں تین دھڑوں کے متحد ہونے سے کیا تبدیلی آئے ،یہ تو وقت بتائے گا لیکن مصطفی کمال کا یہ کہنا کہ ہم کیا شریف ہوئے سارا شہر ہی بدمعاش ہو گیا،ایم کیو ایم کی سابقہ کارکردگی کا بخوبی اظہار ہے اور کیا ووٹ کو اسی طرح عزت ملے گی یا جمہوریت اسی طرح پنپے گی؟حیرت اس امر پر ہوئی کہ گذشتہ دنوں سندھ میں تحریک انصاف کی رکنیت سازی کے مواقع پر شہری جوق در جوق رکنیت سازی کیلئے امڈے آئے لیکن بلدیاتی انتخاب پر نتیجہ قطعی مختلف نظر آیا اور تحریک انصاف کے بڑے کارکن بھی انتخابی میدان میں شکست سے دوچار ہو گئے۔ تسلیم کہ بلدیاتی انتخابات کے محرکات کلیتاً مختلف ہوتے ہیں اور اس میں گلی محلے کی سطح پر تعلقات اور کام نظر آتا ہے،جس میں تحریک انصاف کی یہ ناکامی ،اس کی گلی محلے کی سطح پر کارکردگی اور تنظیم سازی کو آشکار کرتی ہے۔علاوہ ازیں ! ان بلدیاتی انتخابات میں ووٹرز کی نسبتاً بہت کم تعداد باہر نکلی اور ووٹنگ کی شرح قریباً پندرہ سے بیس فیصد بتائی جا رہی ہے،اس کے پس پردہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ اس پر مختلف آرا ہیں کہ شہریوں کا اعتماد اس نظام پر انتہائی کم ہو چکا ہے یا انتخابی نظام سے اس قدر بیزار نظر آتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ ان کا ووٹ ،ان کے منتخب کردہ امیدوار کو نہیں ملے گا۔ اس حوالے سے کچھ ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں کہ کس طرح بیلٹ بکسوں کو بھرا گیا ہے اور کس طرح انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے،اس میں تحریک انصاف کے فردوس شمیم کی ویڈیو بھی شامل ہے۔ فردوس شمیم کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ازخود بیلٹ باکس کھولیں ؟اگر کوئی انتخابی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کیلئے قانون موجود ہے،یوں خلاف قانون حرکت کا جواز کسی بھی طور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔یہی اصول دوسری جماعتوں کیلئے بھی ہے کہ بطور سیاسی و جمہوری،ازراہ تفنن کہ اکثریتی سیاسی جماعتیں جمہوری لبادے میں آمریت کا روپ دھارے ہوئے ہیں،جماعتیں انہیں سیاسی عمل میں دھونس و دھاندلی سے گریز کرتے ہوئے ،جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے بروئے کار آنا چاہیے لیکن اب تک اس کے برعکس ہی ہوتا آیا ہے۔نجانے یہ گھناؤنا کھیل کب تک چلے گا اور کب تک سیاسی جماعتیں ،سپورٹس مین شپ اپناکر ’’ووٹ کو عزت‘‘ دینے کے قابل ہوں گی کہ انتخابی عمل کے ایک ایک قدم پر اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنا یا اپنانا، پاکستانی سیاسی عمل کی ریت بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں انتخابی عمل کیلئے ،الیکشن کمیشن ایک بااختیار ،غیر متنازعہ اور غیر جانبدار ادارہ تصور ہوتا ہے اور دنیا بھر میں ایسے الیکشن کمیشن موجود ہیں کہ جن کے تحت انتخابی عمل کو تمام سیاسی جماعتیں من و عن تسلیم کرتی ہیں حتی کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی الیکشن کمیشن کی خودمختاری تسلیم کی جاتی ہے،نگران حکومتوں کا تصور تک نہیں البتہ بے ضابطگیوں اور انتخابی قوانین کے عین مطابق متاثرہ فریق دادرسی ضرور طلب کرتا ہے اور فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں انتخابی عذرداریوں پر فیصلے اس وقت آتے ہیں جب ان کی اہمیت یا ضرورت باقی نہیں رہتی اور الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری و شفافیت ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہتی ہے۔
بہرکیف ان حقائق کے برعکس قومی سیاست میں ہیجان انگیزی مزید بڑھتی نظر آرہی ہے کہ فریقین کسی بھی صورت اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں اور جو حقائق اوپر بیان کئے ہیں ،حکومت کی توپوں کا رخ ایک بار پھر عمران کی نئی چال پر مرکوز ہوتا نظر آتا ہے۔قومی اسمبلی سے مستعفی ہوتے وقت یہ گمان کرنا کہ عمران خان کسی موقع پر واپس قومی اسمبلی میں آنے کا اشارہ دے گا،ممکن نظر نہیں آتا تھا لیکن حالات وواقعات اس قدر تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں کہ اگلے لمحہ کی خبر نہیں۔ پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ وفاق میں عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد وہ بآسانی پنجاب کو بھی فتح کر لیں گے جو محدود مدت کیلئے پی ڈی ایم نے کیا بھی لیکن اس کو قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ عدالت عظمی کا فیصلہ پنجاب میں حکومت قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن گیااوریوں خواب چکنا چور ہو گیا ۔پی ڈی ایم کی اگلی کوشش اور خواہش عمران خان کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنا تھا ،جس کیلئے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے گئے،اراکین اسمبلی کو خریدنے کی کوششیں ہوئی،چودھری برادران کے خاندانی تعلقات تک خراب ہو گئے،چودھری پرویز الٰہی دبے لفظوں میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی مخالفت بھی کرتے رہے لیکن آخرکار عمران خان نے انہیں قائل کیا یا لائحہ عمل کا حصہ تھا ،پنجاب اسمبلی تحلیل ہو چکی اور تحریر کے شائع ہونے تک خیبر پختونخوا اسمبلی کے بھی تحلیل ہونے کا قوی امکان ہے۔ پاکستانی سیاست ایک ایسے موڑ میں جاچکی ہے کہ اگر حکومت وقت دو صوبائی اسمبلیوں پر ضمنی انتخاب کرواتی ہے،تو گویا سترفیصد حصے پر انتخابات کروانا پڑتے ہیں جبکہ عام انتخابات کا ڈول بھی چند ماہ کے فاصلے پر ہے بشرطیکہ اسمبلی کو مدت کو بڑھانے کا چارہ نہ کیا جائے۔ دوسری طرف حکومتی بزرجمہر جو کل تک عمران خان کو سیاست کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے فلور پر بلا رہے تھے،ایوان میں بیٹھ کر مسائل کے حل کی باتیں کررہے تھے،اپنے تئیں تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کے استعفے لٹکا کر بیٹھے تھے،لگتا ہے کہ اب استعفوں کی نامنظوری کا معاملہ بھی ان کے گلے کی ہڈی بننے جارہا ہے کہ عمران خان نے عندیہ دیا ہے کہ عام انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنے کی خاطر اگر انہیں قومی اسمبلی میں واپس جانا پڑتا ہے ،تو وہ اسمبلی جانے کا سوچ سکتے ہیں۔اس صورت میں سپیکر قومی اسمبلی کس طرح مستعفی اراکین کے استعفے منظور کرسکتے ہیں کہ اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہو گا کہ دو صوبائی اسمبلیوں اور آدھی قومی اسمبلی کے انتخابات آئینی مدت کے اندر یعنی نوے روز میں کروائیں جائیں اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں اور تیس فیصد حصہ میں وقت پر انتخابات کروائیں جائیں؟عقلمندی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں پورے پاکستان میں قبل ازوقت لیکن بیک وقت انتخابات کروا لئے جائیں کہ اس وقت پاکستان کی جو معاشی صورتحال ہے،اس میں یہ ممکن نہیں کہ ریاست دو حصوں میں انتخابی عمل کا خرچ برداشت کر سکے۔
البتہ یہاں یہ خیال کرنا کہ موجودہ حالات کو اسی طرح عمران خان نے بھی تصور کیا ہوگا،ممکن نہیں کہ اتنی پیچیدہ منصوبہ بندی اور صد فیصد نتائج دینے والی،ممکن نظر نہیں آتی۔ بہرکیف اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عوامی حمایت کے زور پر حالات کے مطابق ،تمام راستے بنتے گئے ہیں اور اس میں اہم ترین حقیقت کہ عمران خان پاکستان چھوڑ کر نہیں ’’بھاگا‘‘ ،نہ مقدمات کے ڈر سے اور نہ ہی خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے،نہ اہم و طاقتور قوتوں کے خلاف ہونے پر،اس نے جو کہا کرکے دکھایا ہے کہ اس کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ اب اس کے مخالف اس پر جو الزام بھی رکھیں،یہ ان کا ظرف ہے ،قومی اسمبلی میں واپس جانے کا عمل بھی بقول عمران خان کے شفاف انتخابات کی خاطر ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن پر اسے اعتبار نہیں اور نگران حکومت کی مشاورت راجہ ریاض،جو اگلے انتخابات میں نون لیگ کے ٹکٹ کا امیدوار ہے،پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ لمحہ موجود میں عمران خان کے مخالف اسے ’’یوٹرن ‘‘کہیں گے جبکہ عمران خان کے حمایتی اسے عمران خان کی ’’بہترین حکمت عملی‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button