Editorial

قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ

 

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں نگران سیٹ اپ کے لیے واپس جا سکتے ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ راناثناءاللہ نے تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو ایوان میں ویلکم کریں گے، عمران خان کو آہستہ آہستہ ہر چیز پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا اور وزیر داخلہ نے خوش آمدید کہا لیکن اگلے ہی روز سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے 35اراکین قومی اسمبلی پرویز خٹک، عمران خٹک، شہریار آفریدی، علی آمین خان گنڈا پور، نور الحق قادری، راجہ خرم شہزاد، علی نواز اعوان، صداقت علی، غلام سرور خان، شیخ رشید ،شیخ راشد شفیق، منصور حیات، فواد چودھری، ثناء اللہ خان، حماد اظہر، شفقت محمود، ملک عامر ڈوگر ،سابق وزیر شاہ محمود قریشی، زرتاج گل، فہیم خان، سیف الرحمان، عالمگیر خان اور سید علی حیدر کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔ قبل ازیں تحریک انصاف کے مستعفی 9 ارکان قومی اسمبلی کی نشستوں پرگذشتہ سال ستمبر میں ضمنی انتخاب ہوچکا ہے تاہم پاکستان تحریک انصاف کے 35 ارکان کے استعفوں کی منظوری اور ان کی نشستیں خالی قرار دیے جانے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے خالی نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم حصہ نہیں لے گی اور بہت جلد الیکشن نہ لڑنے کی وجوہات کا بھی اعلان کیا جائے گا پس تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جاتی ہے تو ان کے 45ارکان کم ہوں گے، جن کے استعفے سپیکر قومی اسمبلی نے دو مراحل میں منظور کرلیے ہیں۔ قبل ازیں سپیکر اسمبلی پی ٹی آئی کے اراکین کے اجتماعی استعفے اِس بنیاد پر قبول کرنے سے گریزاں تھے کہ ہر رکن کو انفرادی طور پر سپیکر سے ملاقات کرکے اپنا موقف بیان کرنا چاہیے جیسا کہ آئین میں کہاگیا ہے لیکن نئی صورت حال میں جناب سپیکر قومی اسمبلی نے 35 اراکین کے استعفے منظور کرلیے ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر قومی اسمبلی میں جانے کا عندیہ دیا ہے اگرچہ اس کی وجہ انہوں نے نگران سیٹ اپ کی تشکیل میں مشاورت بتائی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا ہے جب اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں لائی گئی تو وہ جمہوری رویے کا اظہار کرتے ہوئے ایوان میں حزب اختلاف کے طور پر موجود رہ کراپنا آئینی حق ادا کرتے، لہٰذا تب شاید اتحادی حکومت نیب سمیت دیگر معاملات پر بھی قانون سازی میں مشکلات کا سامنا کرتی جن کے خلاف تحریک انصاف اب عدالت عظمیٰ سے رجوع کرچکی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں مرکز میں حکومت تبدیل ہوئی چونکہ حزب اختلاف نے آئینی طریقہ کار استعمال کیا، لہٰذا تحریک انصاف کو بھی چاہیے تھا کہ اِس کا آئینی طریقے سے مقابلہ کرتی لیکن اِس کے برعکس تحریک انصاف نے اجتماعی استعفوں کااعلان کرکے قومی اسمبلی سے لاتعلقی اختیار کرلی اور ملک گیرسطح پر رابطہ عوام مہم شروع کردی گئی لہٰذا اتحادی حکومت نے آئینی ضرورت کے تحت فرینڈلی حزب اختلاف تشکیل دے کر اپنا کام شروع کردیا۔ جہاں تک سربراہ پی ڈی ایم کا ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان ہے تو بظاہر رواں سال عام انتخابات کا انعقاد یقینی نظر آرہا ہے، اتحادی حکومت کی طرف سے بچانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب اسمبلی تحلیل کی جاچکی ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری اِس وقت گورنر خیبر پختونخوا کے پاس پہنچ چکی ہوگی لہٰذا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد پانچ سال کے لیے انتخابات ہوں گے اور اگر مرکز میں بھی نگران سیٹ اپ کی تشکیل کی باتیں ہورہی ہیں تو اِس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حالات تیزی سے عام انتخابات کے انعقاد کی طرف جارہے ہیں اور بلاشبہ بہرصورت سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہونا چاہیے، کیونکہ وطن عزیز کو سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے، قرضوں کا بوجھ اور جان لیوا مہنگائی نے ہر چہرے کی مسکراہٹ چھین لی ہے، ہمہ وقت چہار سو بے یقینی کے سائے ہیں، کوئی سرمایہ کار پیسہ نکالنے کے لیے تیار نہیں، جو کاروبار چل رہے تھے وہ بھی بند ہورہے ہیں، اتحادی حکومت کہتی ہے کہ اُس نے ملک کو ڈی فالٹ سے بچالیا ہے جبکہ حزب اختلاف کہتی ہے کہ معیشت تباہ کردی لہٰذا فوری انتخابات کرائے جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں جانے کا فیصلہ بالکل جمہوری ہے بلکہ پہلے ہی استعفے دینے کی بجائے جمہوری عمل میں حصہ لینا چاہیے تھا، تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد جتنی ایوان میں موجود تھی یقیناً اتحادی حکومت کے لیے قانون سازی کرنا مشکل ہوتا اور ہر معاملے پر انہیںبھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا مگر جب تحریک انصاف نے میدان خالی چھوڑ دیا تو اتحادی حکومت کو بھی کھلا اور وسیع میدان مل گیا، تحریک انصاف اگر قومی اسمبلی میں دوبارہ جاتی ہے تو یقیناً یہ جمہوری عمل کے لیے بھی حوصلہ افزا فیصلہ ہوگا اور اِس سے ثابت ہوگا کہ ایوان کے فیصلے بالآخرایوان میں ہی ہونا ہوتے ہیں لہٰذا ایوان سے لاتعلقی سیاسی نقصان کا باعث بنتی ہے، ہمیںامید ہے کہ اتحادی حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کو کھلے دل کے ساتھ ایوان میں خوش آمدید کہا جائے گا کیونکہ گفت و شنید اور مشاورت کا نام ہی جمہوریت ہے،لہٰذا سڑکوں کی بجائے ایوانوں میں فیصلے ہونے چاہئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button