ColumnKashif Bashir Khan

اتحادیوں سے ہاتھ ہو گیا! کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان میں اس وقت سیاسی کشمکش عروج پر ہے اور جس دباؤ کا شکار گزشتہ سال اپریل سے پاکستان تحریک انصاف تھی،پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بعد اس سے کئی فیصد زیادہ دباؤ اس وقت اتحادی جماعتوں پر ہے اور خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کو بھی اگر حسب وعدہ توڑ دیا گیا تو پھر اتحادی جماعتوں کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہو گا۔حکومت پر جو دباؤ اس وقت آچکا ہے اس کا بوجھ اتنا شدید ہے کہ بدترین معاشی حالات اور وفاقی حکومت کی شدید نااہلی کی وجہ سے وفاقی حکومت عوام کو مہنگائی کے دوزخ میں دھکیلنے کے بعد ایسے گرداب میں خود پھنس چکی ہے جس سے نکلنا اس کے بس میں دکھائی نہیں دے رہا۔جو کچھ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کے اعتماد کا ووٹ لینے کے تناظر میں ہوا وہ اب تک نواز شریف سمیت نون لیگ کے سیاسی عزائم کو ملیا میٹ کرنے کے بعد عمران خان کے مخالفوں کے کانوں سے دھواں نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔پنجاب اسمبلی میں رانا ثناءاللہ،رانا مشہود اور عطا اللہ تارڑ نے ڈیرے ایسے ہی نہیں ڈالے تھے بلکہ ان کا رابطہ تحریک انصاف کے قریباً درجن بھر اراکین پنجاب اسمبلی سے ہوا تھا اور رانا ثناءاللہ اینڈ کمپنی نے ان سے بہت کچھ طے کر لیا تھا اور یہ سب کرنے کے بعد انہوں نے وہ بیان دیا جو ان سب کیلئے بالعموم اور رانا ثناءاللہ کیلئے بالخصوص خفت اور بدنامی کا باعث بنا۔
وہ بیان تو ہر چینل بار بار چلا رہا تھا جس میں رانا ثناءاللہ فرما رہے تھے کہ میں اب اسلام آباد تب ہی جاؤں گا جب پنجاب حکومت ہمیں مل جائے گی۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جب نون لیگ کے کرتا دھرتاؤں نے اعتماد کے ووٹ ناکام بنانے کیلئے تمام ’’بندوبست‘‘کر لیا تھا تو پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ رانا مشہود کو اچانک پنجاب اسمبلی سے بیماری کا بہانہ کر جانا پڑا اور رانا ثناءاللہ وغیرہ بھی اعتماد کے ووٹ کی گنتی سے قبل ہی اپوزیشن کے واک آؤٹ کے نام پر اسمبلی سے بھاگ نکلے۔
دراصل جب اسمبلی کا سیشن طویل ہوا تو اپوزیشن جماعتیں رانا ثناءاللہ کی قیادت میں ماضی کے چھانگا مانگا کی طرح اپنابندوبست مکمل کر کے پنجاب اسمبلی کچھ عرصہ کیلئے بچانے کی کوششوں میں خود کوکامیاب سمجھ رہے تھے اور میڈیا میں بیانات دے رہے تھے کہ وفاقی وزارت دفاع داخلہ ہمارے پاس ہے اورجیو فینسنگ کے ذریعے اراکین کی لوکیشن بھی ٹریک کر رہے ہیں اس لیے گنتی میں دھاندلی نہیں ہونے دی جائے گی۔پنجاب اسمبلی میں دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب رانا ثناءاللہ اینڈ کمپنی سے ڈیل کر کے انہیں اسمبلی سیشن سے خیر حاضر رہنے کی یقین دہانی کروانے والے اراکین نے اسمبلی میں آنا شروع کردیاجبکہ ان کے موبائل فونز کی لوکیشنز کچھ اور بتا رہی تھیں گویا ان منحرف اراکین نے اپنے فون بھی وہاں ہی چھوڑ دیئے جہاں سے وہ چلے تھے۔دائیں دکھا کر بائیں مار دی گئی تھی اور پنجاب پر بزور سرکاری بازو قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے والوں کا ماتھا اس وقت بھی ٹھنکا جب چار اراکین پنجاب اسمبلی جو بیرون ملک تھے وہ بھی اسمبلی ہال میں پہنچنا شروع ہو گئے۔اس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ جو بڑے اعتماد اور مغرور انداز سے پنجاب اسمبلی کی گیلری میں تشریف فرما تھے نے’’ بچہ جمہورا‘‘ کے ساتھ اسمبلی سے بھاگ کر باہر آ کر ایک پریس کانفرنس شروع کر دی۔مومنہ وحید ،خرم لغاری اور مسعود نامی ایم پی ایز نے وفاداری نون لیگ سے نبھا کر اپنی سیاست ہمیشہ کیلئے دفن کردی لیکن اب سوچنے کی بات ہے کہ جن اراکین پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے اتحادی جماعتوں سے غیر حاضر رہنے کا وعدہ کیا تھا وہ اسمبلی ہال میں کیسے پہنچ گئے؟ان اراکین کو کسی خفیہ ہاتھ نے اسمبلی میں نہیں پہنچایا بلکہ یہ پلاننگ عمران خان،اسد عمر اور فواد چودھری کی تھی جس نے رانا ثناءاللہ سمیت تمام اپوزیشن کو سیاسی ذلت دلائی کہ اقلیتی جماعتیں ہونے کے باوجود وہ پنجاب پر قبضہ کرنے بھاگے پھرے۔
یہ تو ویسا ہی سین تھا جیسے قوم نے فواد چودھری کے پوائنٹ آف آرڈر پر اپنے اختیارات استعمال کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں رجیم چینج کے تحت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد فارغ کر دی تھی۔وہ تو اگر آئین پاکستان کے آرٹیکل 69 کا احترام کیا جاتا اور پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان جو آگ کا دریا تھا اسے عبور نہ کیا جاتا تو رجیم چینج بری طرح ناکام ہو چکا تھا اور اگر ایسا ہوتا تو یقیناً آج پاکستان جس بری معاشی اور سیاسی میں گرفتار ہے وہ بھی ہمیں نہ دیکھنا پڑتا۔خیر پنجاب اسمبلی میں 186 کی نمبر گیم کو پورا کرنے کیلئے بلال وڑائچ کو نہایت خاموشی سے چودھری پرویز الٰہی سے اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر راضی کرنے والا کوئی اور نہیں فواد چودھری تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں جتنا بڑا ہاتھ اور سیاسی ہاتھ پنجاب کی سیاست میں تحریک انصاف نے شریف فیملی اور ان کے حواریوں کے ساتھ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔پاکستان کی سیاست میں بیرونی سازش اور مدد سے اقتدار میں آنے والی اقلیتی اتحادی حکومت کے خلاف اپریل 2022 میں جب اس وقت کے وفاقی وزیر قانون فواد چودھری نے بیرونی سازش کے تحت لائی گئی تحریک عدم اعتماد کے خلاف پوائنٹ آف آرڈر پیش کیا تھا اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رولنگ دے کر اس بیرونی سازش کے تحت لائی گئی تحریک عدم اعتماد کومسترد کر دیا تھا۔اگر اس وقت بھی پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی دیوار جسے ہمارے دوست بیرسٹر علی ظفر بار بار آگ کا دریا یا دیوار قرار دیتے رہے، کو عبور نہ کیا جاتا تو آج پاکستان اس بدترین معاشی گڑھے میں نہ ڈوبا ہوتا۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 69 کو بھی بھی روندتے ہوئے اقلیتی اتحادی جماعتوں کوسرفرازکی مدد سے حکمران بنا دیا گیا۔آج جب عمران خان قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے خلاف پہلے تحریک اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے اور پھر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے اراکین کی قومی اسمبلی واپس جانے کی بات کرتے ہیں تو رانا ثناءاللہ بیان دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اراکین کو اپنے استعفے واپس لینے ہوں گے۔اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آتی ہے توشہباز شریف حکومت کا اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے ساتھ ملکر نگران تعیناتیوں کا خواب بھی چکنا چور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کہ نہ تو وہ انتخابات لڑنے کے قابل ہیں اور نہ ہی وہ حکومت چلا پارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو جائے گی اور نگران وزیر اعظم اور کابینہ کی تشکیل میں تحریک انصاف شامل ہو گی۔قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے 35 اراکین کے استعفے اس حکومت نے جو گزشتہ نو ماہ سے استعفے منظور نہیں کر رہی تھی کو منظور کر کے وفاقی حکومت نے ظاہر کر دیا کہ وہ ہر سیاسی جنگ ہار چکے ہیں۔عمران خان نے تمام تر رکاوٹوں اور مخالفت کے باوجود نوے کی سیاست کرنے والے شریف اور زرداری دونوں کو مکمل طور پر بے بس کر کے پاکستان سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے انتخابات سے قبل ہی سیاست ناک آوٹ کر دیا ہے۔

عمران خان نے اتحادی حکومت کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے کہ نہ تو وہ انتخابات لڑنے کے قابل ہیں اور نہ ہی وہ حکومت چلا پارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو جائے گی اور نگران وزیر اعظم اور کابینہ کی تشکیل میں تحریک انصاف شامل ہو گی۔عمران خان نے تمام تر رکاوٹوں اور مخالفت کے باوجود نوے کی سیاست کرنے والے شریف اور زرداری دونوں کو مکمل طور پر بے بس کر کے پاکستان سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے انتخابات سے قبل ہی سیاست ناک آوٹ کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button