CM RizwanColumn

سیاسی بحران یا معیشت سے کھلواڑ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

آخر کار وہی ہوا جس کا وفاقی حکومت کو ڈر تھا اور جو عمران خان چاہتے تھے۔ پنجاب اسمبلی آئینی طور پر ازخود تحلیل ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی گورنر بلیغ الرحمٰن کو بھیجی گئی سمری کو 48 گھنٹے پورے ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی آئینی طور پر ازخود تحلیل ہوگئی۔ پرویز الہٰی نے چند روز قبل جمعہ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی یہ سمری ارسال کی تھی جس پر گورنر نے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا۔ گورنر بلیغ الرحمٰن نے خود اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ وہ اسمبلی توڑنے کے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے، انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسمبلی کی تحلیل کے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے آئینی عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ کا کوئی اندیشہ نہیں جبکہ آئین اور قانون میں تمام معاملات کے آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے۔ اب نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے گورنر پنجاب نے نگران وزیر اعلیٰ کیلئے پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز کو مراسلہ تحریر کر دیا ہے۔ دونوں میں کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا اور نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر تک پرویز الہٰی کام کرتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ لندن سے نواز شریف نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اب پنجاب اسمبلی کو بچانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ سو آج یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ جمہوریت کے نام پر نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور اقتدار کی چھینا جھپٹی میں سیاست دان یہ بھی بھول چکے ہیں کہ غریب آدمی مہنگائی کے سونامی میں غرق ہو چکا ہے اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اب ان سب کی ترجیح تو غریب عوام اور گرتی ہوئی ملکی معیشت ہونی چاہئے تھی لیکن افسوس اب بھی ان سب کی ترجیح اقتدار اور صرف اقتدار ہے۔
اقتدار کے اس کھیل نے ایک بحران کی صورت حال پیدا کر دی ہے، ایک گمبھیر نوعیت کا سیاسی تعطل، بحران اور انتشار اس وقت پورے ملک کے سارے نظام کو تلپٹ کردینے کے درپے ہے۔ اس سیاسی انتشار نے حکومت، قومی سیاسی جماعتوں اور فیصلہ ساز اداروں کو ایسی جگہ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے آگے گلی بند ہے اور پیچھے پلٹنے کو ایک بھی کوئی تیار نہیں۔ ویسے تو ملکی سیاست و حکومت کی تاریخ بدترین تنازعات اور گھمبیر صورتوں سے ہی عبارت ہے مگر پچھلے برس ماہِ اپریل سے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اپنی انتہا پسندانہ، احتجاجی اور منتقم مزاج سیاست کو ایک ایسے مرحلے میں داخل کر دیا جہاں پر سیاسی تصادم کا خطرہ ٹل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر وزیرِ آباد میں کنٹینر پر فائرنگ کے بعد پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو تھم گیا مگر اس کے بعد سیاسی اور سماجی سطح پر کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان بڑھ گیا تھا۔یار لوگوں نے تو جب میاں نواز شریف وزیرِ اعظم نہ رہے تھے اور تاحیات نااہلی کی سزا پاکر قید ہو گئے تھے تب ہی کہہ دیا تھا کہ ایک دن عمران خان اس نہج پر آئیں گے اور آج وہ واقعی اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انہیں کل کلاں نااہلی کے پھٹے پر بھی چڑھایا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ جس سیاسی بحران کا سامنا لمحہ موجود میں درپیش ہے، اس کا آغاز شاید اُسی وقت ہوگیا تھا جب 2014 میں پاکستان تحریکِ انصاف نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مل کر دھرنا دیا تھا۔
اس دھرنے نے سیاسی جماعتوں کے مابین تعلقات میں فاصلوں کو بڑھاوا دیا اور باہمی مذاکرات کے دروازے پر قفل لگا دیا تھا۔ دھرنے کے اثرات ابھی باقی تھے کہ پانامہ سکینڈل منظر عام پر آ گیا، جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ محفوظ نہ رہ سکی۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اُس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کو مائنس کرنا چاہتی تھی۔اس مقصد کے تحت کئی ناجائز اقدامات اٹھائے گئے جو بحران کا باعث بنے۔ اس کے علاوہ بحران کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی ہٹ دھرمی بھی ہے۔ جب وہ حکومت میں تھے تو دیگر بڑی پارٹیوں نے بارہا کہا تھا کہ تعاون کی پالیسی جاری رکھیں گے، مگر عمران کا ہمیشہ یہی جواب رہا کہ وہ سیاسی جماعتوں سے بات نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار کے پہلے سال کی کارکردگی پر زیادہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ بعد میں کرونا وبا نے دُنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا تو پاکستان بھی زَد میں آ گیا۔ پہلی بار سیاسی سطح پر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو پی ڈی ایم کے قیام سے دھچکا لگا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کا اتحاد وجود میں نہ آتا تو شاید موجودہ سیاسی بحران کی نوعیت مختلف ہوتی۔ سیاسی سطح پر بڑی تبدیلی کا عندیہ اُسی وقت ملنا شروع ہو گیا تھا جب فوج کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کو نیوٹرل ہونے کا اشارہ دیا گیا تھا۔ عمران خان نے مختلف جلسوں میں فوج کے نیوٹرل ہونے پر تنقید شروع کی تو اُن کی بے چینی اور اضطراب بھی واضح ہوتا چلا گیا۔
عمران حکومت کا خاتمہ اپنی جگہ مگر موجودہ سیاسی بحران کی ایک وجہ نومنتخب حکومت کا عوام کو فوری ریلیف نہ دے پانا بھی ہے۔اگر شہباز حکومت شروع میں بجلی کے بحران، مہنگائی، ڈالر کی اڑان اور تیل کی قیمتوں پر قابو پا لیتی تو عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کو عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی نہ ملتی۔ دوسری طرف پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی عوامی سطح پر عمران خان کو نئی مقبولیت سے ہمکنار کیا۔ اگر انتخابات کے نتائج مختلف آتے تو شاید لانگ مارچ کیلئے اُن کا اعتماد متزلزل ہو جاتا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ جب ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ یہ پریس کانفرنس ادارے اور پی ٹی آئی کے مابین ایک لکیر کھینچنے کے مترادف قرار دی جا سکتی ہے۔ پھر لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز موجودہ سیاسی تناؤ کو نیا موڑ دینے کا باعث بنا۔ لانگ مارچ جب وزیرِ آباد پہنچا تو عمران خان کے کنٹینر پر گولیاں چل گئیں۔ اس حملے کو جواز بنا کر عمران خان نے متنازعہ طور پر وزیرِ اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ اور آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس شعبہ کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا مطالبہ کر دیا۔
اب پنجاب اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے ٹوٹنے سے اس بحران کا عروج شروع ہونے والا ہے۔ یہ تو تھا موجودہ بحران کا پس منظر۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ گزشتہ برس پانچ جون کو وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے لاہور میں اپنے ایک خطاب میں کہا تھا اگر ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو گرینڈ ڈائیلاگ ضروری ہے۔ بعد ازاں مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم نے تمام سٹیک ہولڈرز سے گرینڈ ڈائیلاگ کا کہا ہے، جس میں فوج اور عدلیہ کے ادارے بھی شامل ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس گرینڈ ڈائیلاگ میں پاکستان تحریکِ انصاف بھی شامل ہو۔ واضح رہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز رضا ربانی نے 10 اگست 2017 کو بھی دی تھی۔ اُس وقت وہ چیئرمین سینیٹ تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم، ملٹری، بیوروکریسی اور چیف جسٹس ادارہ جاتی مذاکرات کا حصہ بنیں۔ مگر عمران خان کے علاوہ بھی بعض بڑے سیاستدان اس قسم کے ڈائیلاگ کے مخالف ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں سب کی ذمہ داریوں اور حد بندیوں کا تعین ہے۔ادارے اپنے حلف کی پاسداری کریں۔اگر ادارے حلف کی پابندی اور سٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داریوں کا خیال نہیں کریں گے تو کسی ڈائیلاگ کا کوئی فائدہ نہیں۔ حالانکہ اس سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ گفتگو کے ذریعے تب بھی ممکن تھا اور اب بھی ہے مگر عمران خان کا طریقہ یہ ہے کہ تصادم اور دباؤ سے یہ راستہ نکالا جا سکتا ہے حالانکہ اگر سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ موجود ہے تو محض ڈائیلاگ سے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو ہر طرح کے ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں اور بارہا اس کی دعوت دے چکے ہیں۔ مگر پاکستان تحریکِ انصاف اس کیلئے صرف انتخابات کے جلد انعقاد کے علاوہ کسی صورت بھی ڈائیلاگ پر راضی نہیں اور اب تو بالکل بھی ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اب تو وہ اپنے انتہائی اقدامات اٹھا چکی ہے۔ اب ایک طرف وفاقی حکومت کے گرنے کے خطرات نے سر اٹھا لیا ہے اور دوسری طرف جنرل الیکشن کے اعلان کے علاوہ تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صورتیں ہی ملکی معیشت کو مزید تباہی سے دوچار کرنے کے راستے ہیں لیکن کیا کریں ملک کی مبینہ طور پر مقبول سیاسی قیادت یہی چاہتی ہے۔ معیشت اور عوام جائیں بھاڑ میں عمران خان تو دو تہائی اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار میں آکر بڑے بڑے اور سخت ترین فیصلے کرنے پر بضد ہیں چاہے وہ فیصلے 73 کے آئین کو معطل کرنے کے ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button