ColumnZameer Afaqi

پاکستان کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی اور مستقبل کا دارومدار اس ملک کے نوجوانوں کو قرار دیا جاتا ہے تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو نہ صرف بیروزگاری بلکہ تعلیم کے مساوی مواقع اور مناسب طبی وسائل کی عدم فراہمی سمیت کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک اپنی مکمل آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اس کثیر تعداد کے باوجود صورتحال انتہائی پریشان کن ہیں،خواندگی و ناخواندگی کے اعتبار سے 100 میں سے 29 نوجوان ناخواندہ ہیں۔ ناخواندہ ہونے کا مطلب جنہوں نے سرے سے تعلیم ہی حاصل نہیں کی، انہیں اپنا نام تک لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا، جبکہ ہر 100 میں سے صرف 6 نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے 12 سال سے زائد تعلیم حاصل کر رکھی ہے، جس میں بیچلر، ماسٹرز، ایم فل، پی ای ڈی کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے اور 100 میں سے بقیہ 65 نوجوان ایسے ہیں جن کی تعلیم 12 سال یعنی انٹر یا ایف اے، ایف ایس سی کی سطح سے نیچے ہے، جس میں پرائمری اور مڈل کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔ان نوجوانوں میں سے 15 فیصد کو نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ 52 فیصد نوجوان اپنا موبائل فون رکھتے ہیں۔ 94 فیصد کو لائبریری کی سہولت میسر نہیں، اور 93 فیصد کو کھیلنے کیلئے میدان میسر نہیں۔
روزگار و معاش کے اعتبار سے 100 میں سے 39 نوجوان ملازم ہیں،ان 39 میں سے 7 خواتین، جبکہ 32 مرد ہیں۔ پھر ان 100 افراد میں سے 57 افراد جن میں 41 خواتین اور 16 مرد ایسے ہیں جو نہ تو نوکری کر رہے ہیں اور نا ہی نوکری کی تلاش میں ہیں، صرف 4 فیصد بے روزگار نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ہیں۔سی ایس ایس 2022 امتحان کیلئے 32 ہزار 59 امیدواروں نے اپلائی کیا جبکہ 20 ہزار 262 امیدواروں نے امتحان دیا، 393 امیدوار پاس ہوئے جبکہ 19869امیدوار فیل قرار پائے۔سی ایس ایس کامیابی کا تناسب 1.94فیصد رہا۔
چند دن جاتے ہیں وفاقی حکومت کے زیر اہتمام اسلام آباد میں سولہ سو کانسٹیبلز کی بھرتی کیلئے قریباً ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں نے آن لائن درخواستیں دیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں ماسٹر ڈگری ہولڈرز بھی تھے۔ کانسٹیبل کی سولہ سو اسامیوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ نوجوان(جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے) درخواستیں دیتے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں بیروزگاری کی حالت کیا ہے؟ان ڈیڑھ لاکھ امیدواروں کی سکروٹنی کی گئی۔ قد، چھاتی اور دوڑ کے مقابلوں میں جنہوں نے رہ جانا تھا وہ باہر رہ گئے اور28ہزار امیدوار باقی بچے جنہوں نے تحریری امتحان میں حصہ لیا۔ لیکن اسامیاں سولہ سو ہی رہیں۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے،ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقعوں کی کمی سے پریشان ہیں۔
اگر نوجوان طبقہ محفوظ و مضبوط ہے تو قوم و ملت کی حفاظت پر آنچ تک نہیں آسکتی، اور اگر اس طبقہ میں کوئی کج روی پائی جائے تو قوم و ملت کا شیرازہ درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ نوجوان ایک بپھرے ہوئے گھوڑے کی مانند ہوتا ہے۔ اس کی لگام جب تک صحیح ہاتھوں میں نہ ہوگی یہ بے لگامی کے نشے میں تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر نوجوانوں کے بنیادی مسائل، حقوق و ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ معاشرے اور اقوام کی تنزلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔جن امور کے متعلق اعدادوشمار موجود ہیں ان میں تعلیم صف اول کا درجہ رکھتی ہے۔ تعلیم نوجوانوں کا وہ بنیادی حق ہے جس سے انہیں محروم رکھنا کسی بھی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو علمی ذوق و شوق سے محروم ہے، مگر اس کے علاوہ کثیر تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے حصولِ تعلیم میں آڑے آنے والے دیگر عوامل کے علاوہ دو قوی وجوہ زبان اور دام ہیں۔
انہیں علوم اپنی آشنا زبان میں میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان اعلیٰ علوم و فنون میں ڈگریاں حاصل کرلینے کے باوجود بھی ملک و ملت کیلئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں اور کچھ نوجوان ایسے ہیں جو تعلیم کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ سائنسی علوم کے علاوہ آرٹس کے مضامین کی فیسیں بھی آسمانوں کو چھوتی ہیں۔ اس لیے اس ملک کی حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو درپیش تعلیمی مسائل حل کرنے کیلئے وہ ماہانہ، ششماہی اور سالانہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے اداروں کو لگام دے، اور غیرملکی زبان کو ضرورت کی حد تک محدود رکھے، تاکہ اس ملک کے کسی بھی خطے میں مقیم اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان علم سے محروم نہ رہیں۔
نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 100 میں سے 57 افراد بے روز گار ہیں، مگر ان میں سے صرف 4 نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ کے علاوہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی کثرت ہے جو بے روزگار ہیں اور وہ اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ اپنے ملک سے کہیں ہجرت کر جائیں۔ ہمارے ہم نام ایک سینئر سیاسی رہنما کے بقول گزشتہ تین برس کے دوران جس قدر تیزی سے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک آباد ہونے کی خاطر وطن سے ہجرت کر رہے ہیں وہ انتہائی خوفناک اور لرزہ خیز ہے اور تاریخ کے سب سے بڑے برین ڈرین کا باعث ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر سوچے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button