ColumnImtiaz Aasi

کیسی جمہوریت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

کہتے ہیںجمہوریت میں عوام کی خواہشا ت کا احترام کیا جاتا ہے، جمہوریت میں عوام کی حکومت ہوتی ہے یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں عوام آٹے کیلئے ترستے ہیں۔بھٹو دور میں عوام آٹے اور چینی کے حصول کیلئے لمبی لمبی قطاروں میں راشن ڈپوئوں پر کھڑے رہتے تھے۔راشن کارڈ پر خاندان کے جتنے افراد کا اندارا ج ہوتا راشن ڈپووں سے قطاروں میں کھڑے ہو کر آٹا اور چینی مل جاتا تھا جب گھریلو ضروریات کے مطابق پورا نہیں ہوتا تو عوام بڑی بڑی سفارشیں کراتے یاپھر بلیک مارکیٹ سے خریدا کرتے تھے۔کئی عشروں کے دوران عوام نے مارشل لاء دور بھی دیکھا اور جمہوری حکومتیں بھی دیکھ لیں آٹے کا بحران بدستور ہے۔عجیب تماشا ہے صوبائی حکومتوں کے پاس وافر مقدار میں گندم موجود ہے فلور ملز کے کوٹے میں اضافے کے باوجود آٹے کی نرخ کم ہونے میں نہیںآرہے۔تو یہ کس کی ذمہ داری ہے فلور ملز والوں کو کوئی پوچھنے والا ہے؟
منشیات مافیا کا سنا کرتے تھے اب تو ہمارے ہاں کہیں مافیا پیدا ہو چکے ہیں ۔ادویات مافیا، گندم آٹا مافیا، چینی مافیا، قبضہ مافیا نہ جانے اب کتنے مافیا معرض وجود میں آچکے ہیں۔ایسے لگتا ہے ہمارا ملک جمہوریت کی بجائے قبضہ مافیا کی زد میں آچکا ہے۔ ملک میں شوگر اور فلور ملیں زیادہ تر سیاست دانوں کی ملکیت ہیں انہیں عوام کی مشکلات کا احساس ہونا چاہیے۔کون نہیں جانتا گندم، آٹا، کھاد اور گھی افغانستان سمگل ہو رہا ہے چند ٹرکوں کو پکڑ کر کارروائی ڈال دی جاتی ہے۔صوبائی حکومتیں گندم کے سیزن میں اپنی ضروریات سے زیادہ گندم خرید کر سٹاک کر لیتی ہیں تو پھر آٹے کا بحران سمجھ سے بالاتر ہے۔ پنجاب میں سرکاری طور پر اٹھارہ سو روپے من گندم خریدی گئی جو فلور ملز والے 2300 سو روپے من کے حساب سے خرید کر چار ہزار روپے من کے حساب سے فروخت کرتے رہے۔اب تو گندم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔چکی کے آٹے کی قیمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ہر روز نئے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔دراصل ہمارے ہاں قانون تو ہے قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔غور کرنے کی بات ہے جب حکومت کے پاس گندم وافر مقدار میں موجود ہے تو آٹے کا بحران کیسے پیدا ہو گیا؟ جمہوریت کا اصل مزہ سیاست دان چکھ رہے ہیں ایک طرف اقتدار ہے اور دوسری طرف مال پانی وافر مقدار میں مل رہا ہے عوام جائیں جہنم میں، انہیں عوام کی کیا فکر ہے۔قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن اور پنجاب کے ضمنی الیکشن میں عمران خان کی جماعت کی کامیابی سے ذمہ داروں کو ادارک ہو جانا چاہیے تھا عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
پنجاب کے حالیہ سیاسی بحران میں وفاقی حکومت کی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی واپسی اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد عوام کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہو جاتا ہے لیکن اقتدار چھوڑنے کو جی نہیں چا رہا ہے۔چلیں اپنے خلاف مقدمات ختم کرالیے ہیں اب انتخابات کرانے میں کیارکاوٹ ہے ؟ بس عمران خان کا خوف طاری ہے کہیں وہ اقتدار میں نہ آجائے۔جیسا کہ ہم اپنے پہلے کالم میں لکھ چکے ہیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی عشروں کی حکمرانی کے بعد اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں عوام ان جماعتوں کی حکمرانی سے تنگ آئے ہوئے ہیں اگر عوام تنگ نہ ہوتے تو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو کبھی ووٹ نہیں دیتے۔صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آئینی طور پر نوے روز میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔پنجاب میں نئے اضلاع کے قیام کے بعد وہاں نئی حلقہ بندیوں کو مسئلہ ہوگا لہٰذا لیکشن کمیشن کو اس پر فوری طور پر کام شروع کرنا چاہیے تاکہ مقررہ مدت کے اندر انتخابات ہو سکیں۔
تازہ ترین حالات میں وفاقی حکومت کو عام انتخابات کی طرف جانا چاہیے بڑا مسئلہ مقدمات کا تھا جو حل ہو گیا ہے اب الیکشن کرانے میں کون سا امر مانع ہے۔وفاقی حکومت نے نئی بڑھک ماری ہے نون لیگ پنجاب میں الیکشن کیلئے تیار ہے اگر صوبے میں الیکشن کیلئے تیار ہے تو جنرل الیکشن کرانے میں کون سی رکاوٹ ہے؟دراصل نون لیگ پنجاب کے الیکشن کا نتیجہ دیکھ کر عام انتخابات کی طرف جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔بھلا مریم نواز آکر کیا کرے گی، مشکلات میں گھرے عوام کے پیٹ مریم نواز کی تقاریر سے کیابھر جائیں گے۔درحقیقت عوام کی رائے سب سے مقدم ہے عوام کسی کو اقتدار دینے کا عہد کرلیں تو کوئی طاقت راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔سیاسی جماعتوں کو ملک اور عوام کے مسائل کاادارک ہونا چاہیے اقتدار آنے جانے والی شے ہے جو سیاست دان اقتدار کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔انسان ہونے کے ناطے عمران خان میں لاکھ برائیاں ہو سکتی ہیں ساڑے تین سالہ دور میں اس کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنا،جواس کے راست باز ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ ذمہ داروں کو رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے وفاق اور چاروں صوبوں میں کسی ایک جماعت کی حکومت ہو تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔و فاق اور چاروں صوبوں میں ایک جماعت کی حکومت سے بہت سے مسائل حل ہو کتے ہیں۔ دراصل اقتدار میں شراکت داری کے ماحول نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔اب وقت آگیا ہے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے عام انتخابات کر ا دیئے جائیں تو سیاسی اور معاشی بحران دونوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ہم کیسے جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عوام ایک وقت کی روٹی سے محتاج ہیں اور حکمران نئی نئی گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ سیاست دانوں کی اکثریت کا تعلق امراء خاندانوں سے ہے جس کی بدولت انہیں نہ تو مہنگائی کااحساس ہوتا ہے اور نہ ہی بے روزگاری کا لیکن عوام کو جھوٹے وعدوں سے ٹرخانے کا وقت گذر چکا ہے عوام سیاست دانوں کے وعدوں کو عملی طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کیسی جمہوریت میں رہ رہے ہیں جس میں کھانے کو نہ روٹی مل رہی ہے اور نہ روزگار کے مواقع میسر ہیں۔ آٹے کا جو بحران موجودہ حکومت کے دور میں ہے بھٹو دور میں بھی نہیں دیکھا تھا سیاست دانوں کی جمہوریت عوام کے مسائل کی بجائے اپنے اقتدار تک محدود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button