Editorial

معاشی چیلنجز اور سیاسی محاذ آرائی

گورنرپنجاب محمد بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کی طرف سے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے مگر آئینی مدت اڑتالیس گھنٹے پوری ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی ازخود تحلیل ہوگئی ہے۔ گورنر بلیغ الرحمان نےنگران وزیراعلیٰ کے لیے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی اور حمزہ شہبازکومراسلہ جاری کیاہے تاکہ نگران سیٹ اپ کے لیے دونوں شخصیات تین تین نام تجویز کردیں۔ اگر دونوں شخصیات کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوتیں تو گورنر پنجاب یہ معاملہ سپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان کو بھجوائیں گے جو اس مقصد کے لیے تحلیل ہوئی اسمبلی کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف پر مبنی کمیٹی تشکیل دیں گے اور اگر یہاں بھی کسی نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو معاملہ پھر الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی سے ایک سو چھیاسی اراکین سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد بارہ جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری بھیجی تھی جسے دو روزاپنے پاس رکھنے کے بعد گورنر بلیغ الرحمان نے دستخط کرنے سے انکار کر دیاتھا،پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد پنجاب کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے، نگران حکومت کے قیام تک چودھری پرویز الٰہی سات روز کے لیے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کریں گے۔گورنرپنجاب بلیغ الرحمان نے انکار کے ساتھ موقف اختیار کیا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے عمل کا حصہ نہ بننےکافیصلہ کیا، ایسا کرنے سے آئینی عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ کا کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ آئین اور قانون میں صراحت کے ساتھ تمام معاملات کے آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے۔مزید برآں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ جس دن عمران خان کی طرف سے اشارہ ملے گا، اس وقت خیبرپختونخوا کی اسمبلی توڑدوںگا، اگرچہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھرپور تیاریوں کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے تاہم یکے بعد دیگرے جو چیلنجز اتحادی حکومت کے منتظر ہیں ان کا ادراک بھی قبل ازوقت کرلینا ضروری ہے کیونکہ ایک طرف وزیراعظم شہبازشریف کو قومی اسمبلی سے ایوان کا ووٹ لینے کے لیے کسی بھی وقت کہا جاسکتا ہے تو دوسری طرف کسی بھی وقت خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کی جاسکتی ہے، لیکن دونوں صوبوں میں پانچ پانچ سال کے لیے ہونے والے انتخابات اور وزیراعظم کا ایوان سے اعتماد کا ووٹ بلاشبہ مسلم لیگ نون کے لیے بڑے چیلنجز ہوں گے اور اگر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے دوران ووٹ اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں تو بلاشبہ اتحادی حکومت کے لیے خطرناک صورت حال ہوگی اور اِس کا ادراک یقیناً نون لیگ کی سیاسی قیادت کو ہوگا مگر کیا ملک کی موجودہ معاشی صورت حال، قرضوں کا پہاڑ اور عوام کو درپیش مہنگائی، صحت اور تعلیم کے مسائل سیاسی کرتب اور شعبدہ بازیوں کی اجازت دیتے ہیں، کیا سیاسی قیادت کے لیے یہ وقت مل بیٹھ کر اِن متذکرہ مسائل کا دائمی حل نکالنے کا نہیں ہے، پس اگر ایسا نہیں کیا جارہا تو پھر ملک کو کس سمت لے جانے کا اشارہ ہے؟ ڈھکے چھپے الفاظ میں خامہ فرسائی کرنا بھی بے سود نظر آتا ہے کہ شخصیات کے درمیان عناد کج بحثی کی بدترین شکل اختیار کرچکا ہے، کبھی تو سیاسی اور نظریاتی اختلافات کی جگہ باہمی عناد کا شائبہ ہوتا ہے کیونکہ متحارب کا طرز عمل اور شائستگی سے خالی تلخ باتیں اِس شائبہ کو تقویت دیتی ہیںلہٰذابالاختصار کہا جاسکتا ہے کہ مرض کی تشخیص تو بجا مگر دوا کا اہتمام نہیں ہے۔ بالعموم سابقین کو مورود الزام ٹھہراکر بری الذمہ ہونے کا لبادہ اب ذمہ داران کو ڈھانکنے کے لیے ناکافی ثابت ہوچکا پس ہر کام کے اغراض و مقاصد عیاں ہونے میں اب وقت نہیں لگتا اِس لیے چال ڈھال خصوصاً طرز عمل بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی قیادت کی خدمات کا محققانہ تجزیہ موجودہ مسائل کی صورت میں سب کے سامنے آچکا ہے ، ذمہ دار بھلے کسی کوبھی ٹھہرائیے کون کتنا ذمہ دار ہے، عامتہ الناس بخوبی جانتے ہیں۔ دور ماضی کاتذکرہ کیے بغیر پھر یہی گذارش کرنا چاہیں گے کہ سیاسی قیادت ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کا بروقت ادراک کرنے میں ہمیشہ کیوں تاخیر کردیتی ہے اور کیوں ایسے اعمال ظاہر کرتی ہے جو اُس کی سیاسی اہلیت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک چہار اطراف سے خطرات میں گھِرا ہواہے، معیشت کا مسئلہ سنگین تر صورت اختیارکرچکاہے، ڈیفالٹ ہونے کے خطرات ہمہ وقت موجودہیں، عوام بدترین حالات سے دوچار ہیں، صنعت و تجارت کی تالہ بندی ہورہی ہے، پس ہر وہ دائو ہمارے خلاف کارآمد ثابت ہورہا ہے جو کسی باشعور قوم کے خلاف آزمایا نہیں جاتا کیونکہ ہم داخلی طور پر اتنے نحیف ثابت ہوئے ہیں کہ دشمن ہمیں اندرونی چوٹ پہنچانا ہی کارکرسمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کبھی پٹری سے نہیں اُترتی بلکہ ہم جمہوریت کی پٹری پر ناسمجھی کی کاری ضربیں لگاتی ہیں جبھی حادثہ پیش آتا ہے، مگر افسوس کہ ہم اپنے پیش رو سے کچھ سیکھتے ہیں اور نہ ہی ماضی ہماری روش بدلنے کے لیے کافی نظر آتا ہے۔ سیاست دانوں کے رویوں میں لچک نہیں لہٰذا اُن کی سخت گیری کی قیمت ملک و قوم ادا کرتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو آئینی طریقے سے ہٹایاگیا بلاشبہ یہ حزب اختلاف کا حق تھا لیکن اِس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھا اور عوام کے اضطراب میں بھی اضافہ ہوا پس آج صورت حال یہ ہے کہ چہروں کی مسکراہٹ بھی آپ کے اندرونی اضطراب کو چھپانے کے لیے ناکافی دکھائی دیتی ہے۔ تمام شکاری ایک تیر سے دو شکار کرنے کا ارادہ رکھتےہیں اور بظاہر کئی شکار کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ اُس تیر سے ملک و قوم اور ریاست کے مفادات چھلنی ہوئے ہیں۔ پس یہی وقت ہے کہ اپنی غلطیوں کا ادراک کریں اور ملک و قوم کو اپنی ترجیح بنائیں وگرنہ تاریخ ایسے کرداروں کو کبھی فراموش نہیں کرتی جو المناک حادثات کی وجہ قرار پاتےہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button