Editorial

اعتماد کے ووٹ سے اسمبلی کی تحلیل تک

 

پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کردیئے ہیں۔ گورنر پنجاب نے دو دنوں میں سمری منظور نہ کی تو اسمبلی اڑتالیس گھنٹوں میں خود بخود ٹوٹ جائے گی۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اِس خبر کی تصدیق کی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے ایک روز قبل ہی پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا اور 186اراکین اسمبلی نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، اِس کے فوری بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری کا معاملہ سامنے آگیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے چودھری پرویز الٰہی کی وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے اعتماد کے لیے مناسب وقت دیا، ہر فریق چاہتا ہے دوسرا ابتدا کرے اور پھنسے،وزیر اعلیٰ کے لیے چوبیس گھنٹے 186 ارکان کا اعتماد لازم ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے تھے کہ فیصلہ کرچکے تھے اعتماد کا ووٹ لیں تو بات ختم۔عدالت کا کہنا تھا کہ گورنر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اسمبلی کی تحلیل کا کیا ہوگا، راستہ کیسے رکے گا، معاملہ ایک مناسب وقت سے زیادہ چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے چودھری پرویز الٰہی اورپنجاب کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کانوٹیفیکیشن معطل کرنےکے حکم میں بھی ایک دن کی توسیع کی۔ بدھ کے روز پنجاب اسمبلی کا گرما گرم اجلاس رات گئے تک جاری رہا اور ایجنڈے کے مطابق کارروائی ہوئی مگر حزب اختلاف نے تااختتام اعتماد کا ووٹ لینے کی گردان جاری رکھی۔ رات بارہ بجے سے پہلے سپیکر اسمبلی محمد سبطین خان نے اگلے روز کے لیے اجلاس موخر کیا اور تاریخ بدلنے کے فوری بعد نئے ایجنڈے کے مطابق ایوان سے اعتماد کاووٹ لیا گیا جس کی قرارداد دو صوبائی وزرا نے پیش کی اور 186 اراکین اسمبلی نے چودھری پرویز الٰہی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اگلے روز لاہور ہائی کورٹ میں اسی کیس کی سماعت جاری تھی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے وکیل نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے متعلق عدالت کوآگاہ کیا اور گورنر پنجاب نے بھی وزیراعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی سمری واپس لے لی مگر اُس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کو ارسال کردی ہے۔ تحریک انصاف کے سنیئر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اگر گورنر سمری منظور نہیں کرتے تب اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر صوبائی اسمبلی خود بخود تحلیل ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نگران سیٹ اپ کے لیے قائد حزب اختلاف حمزہ شہبازشریف کو خط لکھیں گے جس میں نگران سیٹ اپ کے لیے تین نام تجویز کرنے کے لیے کہاجائے گا اگر وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق رائے سامنے نہیں آتا تو پھر یہ معاملہ عدلیہ کے پاس جائے گا جہاں سے نگران سیٹ اپ کے لیے ایک نام کا اعلان کیا جائے گا جو انتخابات تک صوبے کے معاملات دیکھے گا ۔ موجودہ صورت حال کے باعث اگر صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہوتا ہے تو وہ پانچ سال کے لیے ہوگا ۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ وزیرخیبر پختونخوا سے بھی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے لیے کہہ دیاگیا ہے یوں اگر کسی متاثرہ کے رجوع کرنے کے بعد عدلیہ کی جانب سے کوئی حکم نہیں آتا تو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی اوردونوں صوبوں میں پانچ پانچ سال کے لیے انتخابات ہوں گے، جیسا کہ بھارت کی اکثر ریاستوں میں سال بھر انتخابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ وہاں بھی ہمیشہ سیاسی کھینچاتانی عروج پر ہوتی ہے مگر جیسا سیاسی عدم استحکام یہاں ہے، ویسا وہاں نہیں ہوتا اور منتخب حکومتوں کو ماسوائے انتہا کے، کسی صورت گھر نہیں بھیجا جاتا اور انہیں اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرنے دیاجاتا ہے۔ بہرکیف وفاق میں اتحادی حکومت کے رہنمائوں کا یہ کہنا ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوئی تو انتخابات کرادیئے جائیں گے، مگر ٹھہر کر سوچنے والی بات ہے کہ کیا موجودہ معاشی بحران میں بار بار انتخابات کے اخراجات قوم برداشت کرسکتی ہے اور کیا انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کو کام کے لیے وسیع میدان ملے گا؟ بلاشبہ نہیں ملے گا کیونکہ سیاسی عدم برداشت کے مظاہر سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جس کو اقتدار نہ ملا وہ سڑکوں پر ہوں تاوقتیکہ اگلے انتخابات کا وقت نہیں آجاتا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگرنئی حکومت کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیاگیا اور پھر سیاسی عدم استحکام اورجوڑ توڑ کی سیاست شروع ہوگئی تو کیا ہم اِس کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ تحریک انصاف کے امیدوار اگر نشستیں جیتنے کے بعد حلف اٹھانے نہیں آتے تو پھر کیا ہوگا؟ بہرکیف سیاسی بے یقینی موجود رہے گی اور اِسی وجہ سے ملک و قوم کو درپیش سنگین اور فوری نوعیت کے مسائل اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ سیاسی قیادت ملک کو مزید بحرانوں کی نذر ہوتے دیکھنا چاہتی ہے یا مل بیٹھ کر ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہوتی ہے، اِس کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے تاہم ہمارے بھی وہی خدشات ہیں جو ملک و قوم کے حالات سے پریشان ہر پاکستانی کے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button