ColumnNasir Naqvi

مزاحمت کریں گے ہم ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سیاست، صحافت، ثقافت اور ادب کے شہر لاہور میں ان دنوں فیض احمد فیض کا چرچا ہے۔ ایک طرف بائیں بازو اور لبرل ازم کے چہیتے فیض امن میلہ کی تیاری میں مصروف ہیں جس کے سرخیل ہمارے سوٹ بوٹ والے مزدوروں کے پیارے طارق فاروق ہیں اور دوسری طرف لاہور آرٹس کونسل، خاصی گہما گہمی ہے۔ طارق فاروق چونکہ جدوجہد، تحریک اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اس لیے انہوں نے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی انتہائی منظم طریقے سے فیض سے محبت اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی ٹھان کر اس ایک روزہ میلے کا 20لاکھ بجٹ رکھ کر ایک خصوصی کمیٹی بنا کر منصوبہ بندی کی، لیکن زندہ دلوں کے شہر لاہور کے کامریڈوں اور فیض کے پیاروں نے ’’سرخ سلام‘‘ ایک تحریک پیدا کر دی۔ سوشل میڈیاکے دور میں اس سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا گیا اور بقول افتخار احمد (سنیئر صحافی) میلے سے پہلے ہی ایک مثبت منظر عام پر آ گئی، فیض امن میلہ کمیٹی کی ایک درجن سے زائد میٹنگ ہوئیں لیکن ایسے تاخیری حربے ہوئے کہ کمیٹی میلے کے انعقاد کیلئے اپنا پسندیدہ مقام الحمرا کلچرل کمپلیکس قذافی سٹیڈیم بھی گنوا بیٹھی۔ طرح طرح کی تجاویز زیر بحث آئیں، کسی نے غزلیات اور موسیقی کو زیادہ وقت دینے کی بات کی ، تو کچھ کا مشورہ مہنگائی اور اس بے چینی کے دور میں فیض کے فلسفہ، سیاست اور ریاست کے ساتھ غریبوں کی بات بھی کی جائے اگر اس میلے ٹھیلے کو چند سال پہلے کے تناظر میں دیکھیں تو یہ خاندان فیض کی سرپرستی میں سجا دکھائی دے گا اور سلیمہ ہاشمی، منزہ ہاشمی پیش پیش پائی جائیں گی۔ اگر اس سے بھی پہلے دیکھیں تو بھی طارق فاروق اپنے ساتھ مزدور تحریک کے سرگرم لوگوں کے ساتھ اوپن ایئر تھیٹر باغ جناع میں دیکھنے کو ملیں گے کیونکہ وہ فیض ان کے نظریات اور جدوجہد کے قائل ہیں۔اس زمانے میںنہ لاکھوں کا بجٹ میسر تھا، نہ ہی ملک بھر سے شرکاء کو مدعو کیا جاتا تھا۔ مقامی دوست اپنی مدد آپ کے تحت جیب سے یہ محفل سجاتے تھے ، فیض کی باتیں بھی ہوتی تھیں، سرخ انقلاب کی کہانیاں بھی سنائی جاتی تھیں، مجھے
بھی ایک مرتبہ اوپن ایئر تھیٹرمیں میزبانی کا اعزاز بخشا گیا۔ میں نے دیکھا کہ جب میلہ سج گیا تو سامنے سیڑھیوں پر سلیمہ ہاشمی اور منزہ ہاشمی بھی اپنے گھروں سے لائے کشن پر بیٹھیں والد محترم فیض احمد فیض کو خراج عقیدت پیش کر رہی تھیں، مختلف شخصیات نے خطاب کیا،فنکاروں نے کلام فیض پر پرفارم بھی کیا اور گلوکاروں نے داد بھی حاصل کی لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ اس خوبصورت محفل میں ایک غیر معیاری مشاعرہ کر کے فیض احمد فیض کی روح کو تڑپایا بھی گیا تھا۔ پھر خاندانِ فیض خواب خرگوش سے بیدار ہو گیا اور کئی سال فیض امن میلہ بڑے جوش و خروش اور شایان شان انداز میں منعقد ہوتا رہا، امن پسند ہوتے ہوئے بھی ہم امن کا بول بالا نہیں کر سکے لیکن فیض امن میلہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر گیا۔ اس مرتبہ بھی بڑی دھوم ہے، لاہور آرٹس کونسل نے فیض فیسٹیول کے نام سے ’’چلو پھر سے مسکرائیں‘‘تین روزہ تقریبات 17سے 19 جنوری تک رکھی ہیں جبکہ طارق فاروق صاحب فی الحال کاسمو کلب کی بکنگ پر مبارک بادیں وصول کر رہے ہیں ۔ اردو ادب اور ترقی پسندو ں کے حوالے سے فیض صاحب منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ فیض فیسٹول اور امن میلہ نہ صرف کامیاب رہے بلکہ شرکاء کی بھاری تعداد ان میں شرکت کرے میں ان تفصیلات سے اپنے ایک ادب نواز دوست کو آگاہ کر رہا تھا کہ اچانک ٹوٹو میاں آف موچی دروازہ آ دھمکے، بمشکل چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولے !واہ کمال کے لوگ تھے، ہمیں ترقی پسندی کا بخار چڑھا کر خود ترقی کر گئے اور ہمیں ’’سرخ ہے سبز ہے‘‘ کی لڑائی میں جھونک دیا۔
میں نے کہا!ٹوٹو میاں بھلا تمہاری فیض سے کیسی لڑائی، کیوں خفا ہو؟کہنے لگے!کیا دیا اس ترقی پسندی نے ہمیں، عالمی سرمایہ دار درندے آج بھی اپنا سرمایہ داری نظام لے کر دنیا بھر کے مظلوم طبقوں پر اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں کیا یہ آسمانی مخلوق ہیں جو اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے افضل سمجھتے ہیں؟ کیا ان کا اور ہم لوگوں کا خدا کوئی اور ہے؟ یاد رکھیں نظام قدر ت ہے، اٹل ہے ’’ات خدا دا ویر‘‘ جہاں مظلوم اور محکوم طبقہ بیدار ہوا وہاں ہی ’’تخت و تاج‘‘ اچھالے گئے۔
ملک صاحب بولے!یہ سوچ کس نے دی فیض نے؟
ٹوٹو میاں!بس بس ان کے ان اشعار سے پہلے بھی یہ تماشا ہو ا ہے ہمیں تو وہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا گئے ہیں ’’تماشا ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔
ملک صاحب نے کہا!اگر شہر میں کوئی ادبی محافل اس مشکل وقت ہو ہی رہی ہیں تو ٹوٹو میاں نہیں چاہتے یہ فیض صاحب کی مخالفت میں سب تباہ کر دیں گے ، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ فیض کتنا بلند پایا شاعر ہے؟
میں نے لقمہ دیا،ملک صاحب!میں گواہ ہوں کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی ایک تقریب میں فیض صاحب تشریف لائے تو رجعت پسندوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اسلامی جمعیت طلباء کے نوجوانوں نے انہیں ٹائی سے پکڑ کر جانوروں کی طرح گھسیٹا اور ان کے داماد شعیب ہاشمی انہیں چھڑانے میں بے بس رہے، اس بدتمیزی پر کیا فیض صاحب کا رتبہ ، مرتبہ یا شان گھٹ گئی، دنیا نے طلباء پر ہی تنقید کی کیونکہ فیض صاحب کی شخصیت بڑی بھاری بھرکم تھی۔
ٹوٹو میاں سے برداشت نہیں ہوا، پھٹ پڑے آپ لوگ بھی بڑے لوگوں سے متاثر ہیں۔ غریب عوام اور انقلاب روس سے متاثر کرنے والے فیض احمد فیض یاد ہیں، غریبوں کی بات کرنے والا، ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا شاعرحبیب جالب اور ساغرصدیقی کیوں بھول گئے ، کیا وہ کسی سے کم ہیں کہ ان کا امن میلہ نہیں ہو سکتا، کہہ دیں یہ دہشت گرد تھے۔ ان کے اشعار بدامنی کا سبب تھے۔
میں نے کہا،ٹوٹو میاں! جذباتی نہ ہوں، بات دلیل سے ہی اچھی لگتی ہے۔
ٹوٹو میاں! آپ لوگ مردہ پرست ہیں۔ آج کے دور میں بھی کلمہ حق کہنے والے موجود ہیں۔ اپنے بیگ سے ایک کتاب نکالی ’’مزاحمت کریں گے ہم‘‘۔
میں بولا!جناب مزاحمت تو ہر دور میں ہوتی ہے مگر سنتا کون ہے؟
ٹوٹو میاں کہنے لگے!یہی تو دکھ ہے، یہ کتاب ’’وکھری ٹائپ‘‘کی ہے۔فرحت عباس شاہ کی شاعری، معافی چاہتا ہوں ، بُرا نہ مانیں، فیض احمد فیض مراعات یافتہ نظریاتی اور سفارتی شاعر تھے۔ آپ کو اختلاف کا حق ہے لیکن زندوں کی قدر کرو، فرحت کو چھوٹا شاعر نہ سمجھو، جبر اور استحصال کے خلاف اس کی آواز سنو، یہ ہے نظریاتی، سفارتی یا سفارشی نہیں۔
یزیدوں اور دجالیوں سے بڑی پرانی عداوتیں ہیں، ہمارے بچوں کو بھی پتا ہے کہ یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔
ذرا سنیں عوامی نوحہ:
تجھ کو اس درد کا پتا ہی نہیں
تو عوامی کبھی رہا ہی نہیں
قبر تک ہو گئی مری مہنگی
اور کفن تو مجھے ملا ہی نہیں
میرا چولہا نہیں جلا سو دھواں
میرے گھر سے کبھی اٹھا ہی نہیں
یہ دیکھیں:
وہی ہے جبر، وہی بے بسی ہماری ہے
وہی خدا ہے، وہی بندگی ہماری ہے
نہ دکھ ہے بدلے، نہ دکھ دینے والے بدلے ہیں
وہی نصیب، وہی زندگی ہماری ہے
اور سنیں:
وہ چاروں سمت سے تنظیم کر کے مارتے ہیں
ہماری جیسوں کو تقسیم کر کے مارتے ہیں
شقیں بناتے ہیں پہلے اٹل تسلط کی
پھر ان شقوں میں بھی ترمیم کر کے مارتے ہیں
گریہ وماتم بھی سن لیں:
پھاڑوں نہ گریبان، دما دم نہ کروں میں
احساس کو اظہار سے باہم نہ کروں میں
میں روز اٹھاتا ہوں کسی خواب کی میت
اور آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتم نہ کروں میں
ٹوٹو میاں بڑے ہی افسردہ انداز میں بولے! ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں بڑے بڑے عالی شان مزاروں پر پھول چڑھاتے ہیں، چھوٹی اور عہد حاضر کی قبر کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں لیکن فرحت عباس انہیں نسل در نسل سے جانتا ہے جب ہی تو کہتا ہے:
بعد آنکھوں کے مرا دل بھی نکالا اس نے
اس کو شک تھا کہ مجھے اب بھی نظر آتا ہے
پھر بھی کہتا ہے:
شایان شان نہیں کہ دغا دے چلوں تجھے
تم سازشیں کرو میں دعا دے چلوں تجھے
میں تو فرحت عباس شاہ کو پڑھ کر پُرامن معاشرے کیلئے اور سرمایہ داری نظام، جبری اور استحصال کے خلاف پُرعزم ہو گیا ہوں کہ مزاحمت کریں گے ہم اپنی بساط کے مطابق آج فیض امن میلہ اور فیض فیسٹیول اہمیت کا حامل بے شک ہے لیکن یہ مطلب اور مفادات کی رنگ برنگی دکانیں ہیں ، اس سال ’’ہاشمی سسٹرز‘‘ شاید پہلے جیسی ’’پاور فل‘‘ نہیں، اس لیے صرف ’’فیض امن میلہ‘‘ کی تماشائی بنی رہیں گی ورنہ وہ کبھی بھی طارق فاروق کے ہاتھ میں یہ میلہ نہ دیتیں۔
آپ ٹوٹو میاں کے خیالات سے اتفاق کریں، کم از کم میں تو نہیں کر سکتا، اس لیے کہ فیض تو فیض ہی ہے۔ ان کی زندگی میں بھی مزاحمت پائی جاتی تھی۔ اب بعد از مرگ اختلاف کرنا تو کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ زندوں کی قدر ہونی چاہیے، مردوں کی قبروں پر پھول نچھاور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button