ColumnNasir Sherazi

روٹی کی راہ کا پہلا شہید .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

گذشتہ پچاس پچپن برس میں آنے والی ہر حکومت ہر امتحان میں فیل ہوئی مگر اس کے باوجود ہم سال میں دو مرتبہ عالمی برادری کا امتحان لینے کیلئے مختلف بین الاقوامی فورمز پر پہنچ جاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے کہ ہم سب نے مل کر ملک کو اُجاڑدیا ہے، برباد کردیا ہے نوچ نوچ کر اس کی بوٹی بوٹی کھاگئے ہیں ا ب تم ہماری مدد کرو۔
عالمی برادری جو دراصل ہماری برادری ہے ہی نہیں وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہماری جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتی ہے۔ اس مرتبہ بھی ہمارا کشکول خالی نہیں رہا اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے کرتوت بہت اچھے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ مل کر ہمیں قرضوں کے جال میں اس طرح جکڑ رہے ہیں کہ ہم ان سے آزاد ہونا تو بہت دور کی بات ہے اس کا سود بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں ہمارے اللوں تللوں کے سبب وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے پانچ ارب ڈالر رہ گئے تھے، ماہ مارچ میں ہمیں آٹھ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھیں، اس کے علاوہ ہمیں پٹرول، کھانے کا تیل، مشینوں کے سپیئر پارٹس، اور بعض دوسری ضروری اشیا کی درآمد کیلئے اتنی ہی رقم درکار تھی ، ابھی اس رقم کے مصرف کا سوچ ہی رہے تھے کہ گندم، آٹے کا نیا بحران کھڑا ہوگیا جس کیلئے اضافی رقم درکار ہے۔ ہم نے دنیا سے منت سماجت کرتے ہوئے کہا، تم ہماری کتنی مدد کرتے ہو یہ تمہارا امتحان ہے، دنیا اپنے امتحان میں کامیاب ٹھہری، ساڑھے دس ارب ڈالر کا انتظام ہوگیا ہے لیکن یہ رقم ایک طرف سے آئے گی اور دوسری طرف سے نکل جائے گی، آٹھ ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے بعد اڑھائی ارب ڈالر بچیں گے، معلوم نہیں وہ ناک میں ڈالیں گے یا کانوں میں یا کہیں اور۔ ٹھیک چند ماہ بعد ہم پھر رونی صورت بناکر ایک مرتبہ پھر خیرات مانگنے نکلیں گے، سرکاری طور پر بتایاگیا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے، ماہ جون تک کے اخراجات ہوجائیں گے۔
ہم زرعی ملک کہلاتے تھے، زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی تھی، اس میں اتنا دم خم تھا کہ ہم اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہوجاتے تھے، بادی النظر میں لگتا ہے کہ اب ہمارا انحصار قدرتی آفات پر ہے، کوئی آفت یعنی زلزلہ، سیلاب آجائے تو ہماری چاندی ہوجاتی ہے، ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ دس پندرہ ارب ڈالر تو ہماری دہلیز پر پڑے ہیں، قدرتی آفات کے بعد اب ہم ہولناک بیماریوں پر انحصار کرنے لگے ہیں، کرونا آیا تو اس بہانے ہمیں کئی ارب روپے کی امداد مل گئی، یہ الگ کہانی ہے کہ اس امداد میں بھی کئی ارب روپے کے گھپلے کی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں لیکن ایک چپڑاسی کی ڈیڑھ سو روپے کی کرپشن سے فرصت ملے تو کوئی اِدھر دھیان دے، امداد ملنے کے فوراً بعد سوچاگیا کہ اتنی رقم مل گئی ہے اس کے خرچ کا بھی سلسلہ شروع ہونا چاہیے لہٰذا ملک و قوم کے عزیز ترین مفاد میں لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کا فیصلہ کرلیاگیا یہ قیمتی گاڑیاں سرکاری افسر استعمال کریں گے ملک کے اندر تیار ہونے والی کاریں ان کے شایان شان نہیں ہیں ذرا ناکامیوں پر ایک نظر، ملک دولخت ہوگیا ہے، قیام پاکستان سے لیکر 2017 تک دنیا بھر سے لیاگیا قرض ایک طرف جبکہ اس کے بعد کے چار برس میں اس سے زیادہ قرض اٹھایاگیا اب وقت آچکا کہ ہم اس کا سود ادا کرنے کے قابل نہیں اس قرض سے کوئی نیا شہر نہیں بسایاگیا ، کوئی ڈیم نہیں بن سکا کہ ملک کی بجلی کی ضرورت پوری کی جاسکے۔
معدنیات جیسے خزانے ہماری زمین میں موجود تھے جن میں سونا، لوہا، تانبا، گیس، نمک، کوئلہ شامل ہیں، ان ذخائر کو عالمی منڈی میں ملنے والی قیمت سے بہت کم قیمت پر نہایت آسان شرائط پر دنیا کو لوٹنے کیلئے دے دیاگیا ۔
دنیا بھر کو ادراک تھا کہ ہمارے یہاں گیس کے ذخائر ختم ہورہے ہیں، دنیا نئے ذخائر کی تلاش کیلئے معاہدے کرنے کیلئے ہمارے دروازے پر دستک دیتی رہی ہم نے دروازہ صرف اس لیے نہ کھولا کہ ہمارے غیر ملکی اکائونٹ میں کیا ڈالو گے نتیجہ سامنے ہے، آدھے سے زیادہ پاکستان میں بسنے والوں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔
ہمارے کسان نے کام کرنا چھوڑا ہے نہ گندم اُگنا کم ہوئی ہے،جوپیداوار ہے وہ ہماری ضرورت کیلئے بہت ہے لیکن ہم اس کی سمگلنگ نہیں روک سکے، نتیجتاً اس کا تیس فیصد سمگل ہوجاتا ہے یوں ہمیں دو وقت کی روٹی کیلئے لالے پڑ جاتے ہیں، جن ملکوں کی سرحدیں ہمارے ساتھ ملتی ہیں وہاں جاکر دیکھیں روزانہ سینکڑوں ٹرک لائن میں لگے نظر آئیں گے جو گندم، آٹا، خوردنی تیل، گھی اور دوسری روزمرہ ضرورت کی اشیا لیکر جاتے ہیں، ہماری پالیسی ہے کہ ہمسائے بھوک سے نہ مریں اہل پاکستان بے شک مرجائیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار جس روز ریٹائر ہورہے تھے آخری روز انہوں نے ایک ایسے مقدمے کا فیصلہ لکھا جو پورے ایک سو برس سے ہماری عدالتوں میں چلتا رہا، اگر یہ چیونٹی کی رفتار سے چلتا تو شاید اس کا فیصلہ دس برس میں ہوجاتا، اس کی رفتار قدم قدم پر روکی گئی، یہ چند کنال زمین کا معاملہ تھا جو ایک خاتون کو وراثت میں ملی تھی اُسے اپنا حق ثابت کرنے میں اتنا وقت لگا کہ وہ ملک عدم کو سدھار گئی اس کی بیٹی بھی یہ مقدمہ لڑتے لڑتے چل بسی تیسری نسل مقدمے کی نذر ہوگئی پھر کہیں جاکر فیصلہ آیا۔
گذشتہ ہفتے ایک مرحوم ریٹائرڈ فوڈ انسپکٹر کو بائیس برس بعد سپریم کورٹ سے انصاف ملا ہے، معاملہ مرحوم کی پنشن اور مراعات کا تھا سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے پنشن اور مراعات مرحوم کی بیوہ کو ایک ہفتے کے اندر ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اب میرپور خاص کا ایک دل خراش منظر، آج واقعے کو گذرے پانچواں دن ہے۔
شہر کی ایک ویران شاہراہ پر دیکھا کہ بچے، جوان، نوجوان لڑکیاں، بزرگ سبھی تیز تیز قدم اٹھاتے ایک جانب رواں دواں ہیں، سب کے چہرے بھی ویران تھے، خیال آیا شاید کسی شخص کا انتقال ہوگیا ہے، یہ سب لوگ اس کے جنازے میں شریک ہیں اور اسے آخری آرام گاہ تک پہنچانے آئے ہیں۔ اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ مرحوم یقیناً کوئی بہت نیک شخص تھا جس کے جنازے میں ہزاروں افراد شامل ہیں، آگے گئے تو ایک ٹرک نظر آیا جس پر سبز پردہ پڑا تھا، یقین ہوگیا کہ مرحوم کا جسد خاکی اس ٹرک میں رکھا ہے، کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹرک ایک اہم سیاسی شخصیت کے گھر کے باہر پہنچ کر رکا، ٹرک کا پردہ اٹھا تو معلوم ہوا یہ آٹے کے تھیلوں سے بھرا ہوا ٹرک ہے، میں اسے آٹے کا جنازہ کہوں گا، پردہ اٹھنے کی دیر تھی کہ ایسی دھکم پیل شروع ہوئی کہ خدا کی پناہ، عورتوں کے سر سے چادریں اُتر گئیں، لباس تار تار ہوگئے، کچھ زخمی بھی ہوگئے، ہزاروں افراد کے جم غفیر میں فقط چند درجن افراد تھے جنہیں آٹے کا تھیلا مل سکا وہ یقیناً خوش نصیب تھے، انہی میں ایک بدنصیب آٹھ بچوں کا باپ تھا جس کے گھر فاقے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے وہ آٹے کے ٹرک کے ساتھ ساتھ دوڑتا رہا جونہی ٹرک رُکا اور آٹے کی ترسیل شروع ہوئی وہ بپھرے ہوئے ہجوم کے پیروں تلے آکے کچلا گیا اور ہمیشہ کیلئے آٹے کی دوڑ سے باہر ہوگیا، خدا اِس نظام اور اس کے کل پرزوں کو غارت کرے۔ جناب وزیراعظم شہید راہ روٹی کیلئے پیکیج کا اعلان فرمائیں آپ تو سستی روٹی کے چیمپئن رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button