ColumnKashif Bashir Khan

ریاست کی ناکامی؟ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

کون کہتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟جو ایسا کہتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کہ ناکام ریاستیں کیا ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں امریکی مداخلت اور سازش سے جب وہ چاہے اپنے من پسند بندے کواگر اقتدار پر بٹھا دے اور پھر اپنی من مانی کرسکے۔ظاہر ہے ریاست ناکام تو نہ ہوئی کہ جس افراد کو امریکہ بہادر چُنتا ہے یا چُنتا چلا آ رہا ہے وہ ریاست کے باشندوں کو قابو کر کے ہی امریکہ بہادر کا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ناکام ریاست میں تو سب کچھ ہی الجھا ہوا ہوتا ہے اور خانہ جنگی کی سی صورتحال ہواکرتی ہے تو پھر ایسی کسی بھی ریاست میں امریکہ بہادر کا ایجنڈا کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ امریکہ بہادر کے ایجنڈے پر کام کرنے کے بعد دنیا کی مختلف مضبوط ریاستیں ہم نے نہ صرف ناکام ہوتے دیکھیں بلکہ تباہ و برباد بھی ہوتے بھی دیکھیں۔
عراق اور لیبیا کی مثالیں بہت پرانی نہیں، لیبیا اور عراق کی مثالیں اس لیے دی ہیں کہ وہ مسلم ممالک ہیں اور ایک دور ایسا بھی تھا کہ دونوں ممالک پورے عرب بلکہ عالم میں رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔پھر پہلے عراق کے صدام حسین کو امریکہ بہادر نے کویت پر حملہ کر کے قبضے کی ترغیب دی جب صدام حسین نے کویت پر قبضہ کر لیا تو فوراً ہی امریکہ بہادر نے پینترا بدلا اور کویت کا ساتھ دیتے ہوئے عراق پر حملہ کردیا اور پھر اس پر ہرقسم کی پابندیاں لگا دیں اور پھر کچھ ہی سالوں میں اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگا کر بڑا حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔
جب لیبیا کے کامیاب ترین حکمران معمر القذافی نے چالیس سال کی حکمرانی کے بعد جیسے ہی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری کا اعلان کیا اور کرنل قذافی کے صاحبزادے نے برطانیہ اور امریکہ کے حکمرانوں سے تعلقات بنا لیے اور پھر انہیں پاکستان سے ایٹمی صلاحیت کے حصول کیلئے پاکستان سے مدد لینے کا راز بھی بتا دیا تھا۔اس کے بعد پاکستان لیبیا اور ایران کے خلاف امریکہ نے ہر بڑا محاذ کھول دیا اور پھر لیبیا پر قبضہ کرنے کے بعد قذافی کو پوری فیملی کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔آج جب ہم لیبیا اور عراق میں تباہی اور عوام کو زندہ درگور دیکھتے ہیں تو لامحالہ دونوں ممالک کے حکمران یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ممالک کو نہ صرف ترقی یافتہ بنایا تھا بلکہ وہاں کے عوام بھی یورپ کے بہت سے ممالک سے زیادہ خوشحال تھے۔کچھ ایسا ہی ماضی میں ایران اور پاکستان کے ساتھ بھی 70کی دہائی میں کیا گیا تھا جب پہلے بھٹو اور پھر رضا شاہ پہلوی کا انجام عبرتناک بنایا گیا تھا۔عیدی امین،شاہ فیصل،انور السادات، حوری بومدین اور یاسر عرفات وغیرہ بھی امریکہ
بہادر کے مفادات کی بھینٹ چڑھے اور پھر ان تمام ممالک کا جو حال ہوا بلکہ اب تک ہو رہا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔زیادہ دور جانے کی بات نہیں ہے وینزویلا کے انجہانی ہوگو شاویز نے بھی خطے میں امریکہ کے وحشیانہ عزاہم کے خلاف علم بغاوت اٹھایا تھا اور وہ اپنی عوام کے تعاون سے اس میں کامیاب بھی تھے اور تیل کی دولت کو فیڈل کاسترو کے ساتھ مل کر عوام کی فلاح اور امریکہ کے جارحانہ انداز کو روکنے میں قریباً کامیاب ہو چکا تھا کہ اچانک ہوگو شاویز کو کینسر ہو گیا اور وہ دنوں میں موت سے ویسے ہی ہمکنار ہوا جیسے ماضی میں حوری بومدین،یاسر عرفات اور کچھ اور رہنمائوں کو مصنوعی طریقہ سے کینسر کے ذریعے مارا گیا تھا۔
آج ان تمام ممالک میں خانی جنگی کی حالت ہے اور وہ امریکہ کی محتاج ہیں کہ وہاں کی تمام معدنی دولت اور تیل وغیرہ پر امریکہ کا ہی قبضہ ہے۔ افغانستان کی تباہ کن صورتحال کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے کہ اسامہ بن لادن کو پہلے اس خطے میں لانے والے امریکہ ہی تھا اور بعد میں نائن الیون کا ڈرامہ کر کے افغانستان میں گھسنے والا امریکہ تھا اور آج بھی افغانستان ہی سی پیک اور پاکستان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کا گیٹ وے ہے اور پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کے پیچھے افغانستان سے زیادہ امریکہ ہے۔اوپر لکھے ممالک کی اکثریت اس وقت ناکام ترین ریاستوں کا عملی ثبوت ہیں جبکہ شام میں تمام تر کوششوں کے باوجود امریکہ کا وار صرف اس لیے نہیں چل سکا کہ روس نے 2013 میں کھل کر شام کی حمایت میں امریکہ کے خلاف اپنا جنگی ایٹمی بیڑا لا کھڑا کیا تھا،لیکن شام بھی امریکی سازشوں اور کارروائیوں کی وجہ سے آج ہرگز ہرگز کوئی کامیاب ریاست نہیں ہے۔اب آتے ہیں پاکستان کی موجودہ بدترین سیاسی اور معاشی صورتحال کی جانب۔
گزشتہ سال اپریل میں پاکستان میں جو حکومت تبدیل کی گئی تھی اور اس تبدیلی کے پیچھے ڈونلڈ لو اور پاکستان میں موجود امریکی سفارت کاروں نے جن جن سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں وہ بھی سب کو یاد ہیں جبکہ جن جن سے ملاقاتیں کی گئی تھیں ان کو اقتدار میں لا کر ان سے ملاقاتیں کم کیوں ہو گئیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اتحادی حکومت بشمول بلاول و آصف علی زرداری کے پاس بھی نہیں ہے لیکن بات شروع ہوئی تھی ناکام ریاست سے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے کمزور حکومت جسے بھان متی کے کنبے کی طرح اتحاد بنا کر اکٹھا کیا گیا تھا اگر آج برسر اقتدار ہے تو اس میں عوام کو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ان کا لانے والے تو دور سمند پار بیٹھے ہیں کہ جن کے پاس آج بھی وزیر اعظم پاکستان اور وزیر خارجہ پاکستان اپنے سیلاب اور تباہ حال معیشت کا رونا روتے ہیں اور تین سالہ امداد جو سیلاب زدگان کیلئے ملنی ہے کو معاشی مسائل کا حل بتا کر عوام کو بیوقوف بنانا چاہ رہے ہیں۔
قارئین کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی معاشی تباہی اور اپنی کرپشن چھپانے اور ہضم کرنے کیلئے امریکہ سمیت جن جن ممالک سے بھیک مانگی جا رہی ہے وہ اگر ہماری کچھ مدد کریں گے بھی تو اس کے بدلے پاکستان سے کیا لیں گے کہ ممالک کے درمیان تعلقات اور مدد کا عالمی پیمانہ باہنی مفادات ہوتا ہے۔پاکستان کا ایٹمی طاقت کا حامل ہونا ہی امریکہ اور مغرب کو کھٹکتا ہے اور جس طرح سے موجودہ اقلیتی حکمران جو عوام کے منتخب ہرگز نہیں ہیں، امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے سامنے اپنا پیٹ ننگا کر رہے ہیں، اور ن کے اشاروں پر اپنی خارجہ سمیت تمام پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں،شاید انہوں نے ماضی کے امریکی پٹھو حکمرانوں کے انجام سے سبق نہیں سیکھا یا پھر ان کا لالچ اور کم علمی شاید انہیں وہاں تک جھانکنے ہی نہیں دیتا۔ پاکستان کو تیزی سے ناکام ریاست کی طرف دھکیلنے والے موجودہ اتحادی حکمرانوں سے اگر جلد پیچھا نہ چھڑوایا گیا تو پھر اگر ریاست ناکام ہوئی تو یہ ناکامی صرف ریاست پاکستان کی نہیں ہو گئی بلکہ ایٹمی ریاست پاکستان جو میزائل ٹیکنالوجی میں دنیا کی کسی بھی طاقت کے ہم پلہ ہے، کی ناکامی ہو گی۔عوام سمیت مقتدر حلقوں کو سوچنا ہو گا کہ ناکام ریاستیں تو اپنے روز مرہ کے معاملات نہیں چلا سکتیں تو اگر ریاست پاکستان خدانخواستہ مکمل ناکام ہو گئی،جس جانب ریاست پاکستان کو موجودہ حکمران تیزی سے لے کر جارہے ہیں،تو پھر ہمارے ایٹمی اثاثوں کا کیا بنے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button