Editorial

معیشت سے متعلق تشویشناک خبریں

 

ملکی معیشت کو پچھلے چند برسوں سے جس گمبھیرتا کا سامنا تھا اب اس کی شدت اور سنگینی واضح طور پر نمایاں ہورہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 نہیں 10؍ ارب ڈالر ہیں، کمرشل بینکوں کے پاس موجود 6؍ ارب ڈالر بھی پاکستان کے ہیں۔اِدھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے سے مشکلات بڑھیں گی ، دوست ملک بھی عالمی ادارے سے معاہدے کے بغیر مدد کے لیے تیار نہیں،ہم ملک دیوالیہ ہونے سے بچانا چاہ رہے ہیں۔مگر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی سربراہ سے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ادارے کی قرض سے متعلق شرائط مکمل کی جائیں گی۔ذرائع ابلاغ میں سیاست ،معیشت، تاریخ کی بلند ترین مہنگائی اور گندم سمیت اشیائے ضروریہ کی قلت مسلسل زیربحث ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اشارہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن دو سے تین دن میں پاکستان کا دورہ کرے گالیکن ذرائع ابلاغ کو وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے بتایا ہے کہ ابھی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔ تاہم وزیر خزانہ اسحاق ڈار ڈونرز کانفرنس کے موقع پرآج جنیوا میں آئی ایم ایف کے مشن چیف سے ملاقات کریں گے جہاں دونوں فریق پاکستان میں مذاکرات کے اگلے دور کے انعقاد کے شیڈول کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔ ہمارے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے کے درمیان گھٹ کر 4.5 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں لہٰذا اسلام آباد کو سعودی عرب اور چین کی جانب سے ڈالر کی آمد کا بے چینی سے انتظار ہے تاکہ معاشی بحران سے فوری نمٹا جاسکے مگر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ دوست ممالک یعنی سعودی عرب اور چین منتظر ہیں کہ آئی ایم ایف پہل کرے تو وہ بھی پاکستان کی مدد کو پہنچیں اور جیساکہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے بھی آئی ایم ایف کے مشن سے متعلق ساری بات کھول کر رکھ دی ہے تو اس کے بعدمعاشی صورتحال کی سنگینی سے متعلق کوئی ابہام باقی نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط حاصل کرنے سے پہلے سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کے اضافی ڈپازٹس اور چین سے سات سو ملین ڈالر تجارتی قرضوں کے طور پر ری فنانسنگ کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے کیونکہ پاکستان کو اگلے ہفتے چین کو مزید30؍ کروڑ ڈالر کا قرض ادا کرناہے یوں زرمبادلہ کے زخائر مزید کم ہوجائیں گے، پس معاشی بحران کس نہج پر ہے، لیٹر آف کریڈٹ کیوں نہیں مل رہے، وطن عزیز میں اشیائے ضروریہ کی تاریخ ساز مہنگائی اور قلت کیوں ہے
اور پھر ارباب اختیار کس حد تک بے بس ہیں، ان تمام حقائق کو سمجھنے میں قطعی دقت کا سامنا نہیںہونا چاہیے۔ جنہوں نے وطن عزیز سے مہنگائی کا خاتمہ اور معیشت کو بہتر کرنے کا دعویٰ کیا تھا آج وہی معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بعد تجربہ کار وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی موجودہ بحران میں اپنی معاشی ٹیم کے ساتھ کچھ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہورہے، گر وطن عزیز کو پچھلے سال موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کا نقصان نہ ہوتا اور اِدھر اُدھر سے ڈالروں کی صورت میں مدد نہ پہنچتی تو بلاشبہ موجودہ حالات کا سامنا ہمیں کئی ماہ پہلے ہوچکا ہوتا اور اِس وقت ہم نجانے کس معاشی صورتحال سے دوچار ہوتے اور ہماری دلجوئی کے لیے کون کونسی تسلی و تشفی دی جارہی ہوتی۔ بلاشبہ ہم سعودی عرب اور چین کے تعاون پر ہمیشہ سے اُن کے شکر گذار رہے ہیں دونوں ممالک ہر مشکل میں ہماری مدد کو پہنچتے ہیں اور اب بھی یقیناً تیار ہیں لیکن جب آئی ایم ایف ہماری معاشی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کردے گا تو اِن دوست ممالک کو بھی تسلی مل جائے گی کہ ان کی امداد کو ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں ، تب وہ بھی مدد کے لیے قدم آگے بڑھادیں گے، لہٰذا ہم ایسی معاشی صورتحال سے گذر رہے ہیں کہ سعودی عرب اور چین بھی تبھی مدد کو آگے بڑھیں گے جب آئی ایم ایف اچھی طرح چھان پھٹک کرلے گا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہ ہو جائے،مگر وزیرخزانہ اور اہم حکومتی شخصیات ایسی باتوں کی سختی کے ساتھ نفی کررہی ہیں۔ بلاشبہ معاشی بحران میں سب سے زیادہ عمل دخل آئی ایم ایف کا ہے جس کا برملا مطالبہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جائیں اور ہر مد میں عوام کو دی جانے والی سبسڈی کو ختم کیا جائے لہٰذا جب ہم چند ایک عملی اقدامات کے بعد باقی اقدامات کی یقین دہانی کرادیں گے تو ہمیں آئی ایم ایف سے امداد مل جائے گی اور پھر دوست ممالک بھی قدم بڑھائیں گے۔ بلاشبہ ہماری ملکی معیشت کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہی لیکن جب سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو عروج حاصل ہوا ہے، معیشت، ترقی سمیت ہر چیز زوال کی جانب بڑھتی رہی اور بالآخر آج وہ وقت آچکا ہے کہ وطن عزیز پر ڈیفالٹ ہونے کے خطرات منڈلارہے ہیں مگرحالات کی سنگینی کا ادراک جنہیں کرنا چاہیے وہ بظاہر اِس صورتحال میں لاتعلق ہیں، سیاسی قیادت مل بیٹھنے کو تیار نہیں لہٰذا قوم بھی نظریاتی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم ہے، معاشی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں اور نئے نئے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جن کا جواب قیادت کرنے والوں کے پاس نہیں، ماسوائے طفل و تسلیوں کے، عوام معاشی بحران کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے، غربت کی لکیر کب سے پھلانگ چکے، اشرافیہ کے مخصوص طبقے کے علاوہ ہر پاکستانی قلیل آمدن اور بے شمار معاشی مسائل کی وجہ سے انتہائی اضطراب کا شکار ہے، مگر معیشت سے متعلق کوئی اچھی خبر متوقع ہے اور نہ ہی ایسے رویوں اور قلیل المدتی حکمت عملی کے نتیجے میں کوئی اچھی خبر آسکتی ہے، دور رس اور پائیدار معاشی حکمت عملی اور سیاسی استحکام کے بغیر ہم وطن عزیز کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کے لیے بضد ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button