ColumnJabaar Ch

نئی سیاسی جماعت! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

خبریں گرم تر کہ پنجاب میں پرانے جہاندیدہ سیاستدانوں پر مشتمل نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کا کام شروع ہوگیا ہے۔اس کام میں مشغول شخصیات ریکارڈ پر آکر اس کی تصدیق ابھی نہیں کرنا چاہتیں لیکن ذرائع سے خبریں میڈیا کو دینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔یہ نئی سیاسی جماعت جنوبی صوبہ محاذ کا ری پلے،اس کا سیکوئل یا اس سے کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔ میرے پاس جو اطلاعات ہیں وہ تصدیق کررہی ہیں کہ پی ٹی آئی سے ناراض ہوکر منحرف ہونے والے ارکان نے فیصلہ کیا ہے کہ سیاست سے الگ تھلگ رہنے،آزاد الیکشن میں جانے یا نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کسی کو جوائن کرنے سے بہترہے کہ اپنی الگ شناخت قائم کرلی جائے ۔اس سے لوٹوں جیسے منفی پراپیگنڈے سے بھی بچیں گے اور پریشر گروپ کا کام بھی کرجائیں گے۔
اس سیاسی پارٹی کی بنیاد عمران خان کے پرانے ساتھی اورعمران خان صاحب پر بے تحاشا دولت لٹانے والے، پنجاب میں نون لیگ کی ناک کے نیچے سے اقتدارکھینچ کر پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالنے والے جہانگیرترین رکھ رہے ہیں ۔جہانگیر ترین کا سیاست میں ایک بڑا گروپ موجود ہے اس کا مظاہرہ وہ حمزہ شہبازکو وزیراعلیٰ بنانے کے موقع پر کرچکے۔گوکہ جہانگیرترین صاحب خودپارلیمانی سیاست سے آؤٹ کردیے گئے ہیں اس لیے خود تو نہیں لڑیں گے لیکن ان کیلئے لڑنے والوں کی بڑی تعداد پنجاب کے مختلف حلقوں میں موجودہے ۔وہ عملی سیاست سے تو دورہیں لیکن اب بھی باقاعدگی سے لودھراں میں اپنے حلقے میں جاتے ہیں اور علاقے کی عوام اور اپنے ووٹرسپورٹرزسے رابطے میں رہتے ہیں۔عین ممکن کہ ان کے صاحبزادے علی ترین اس حلقے سے نئی سیاسی جماعت کے امیدوار ہوں۔ابتدائی طورپراس گروپ کے پاس چالیس کے لگ بھگ جیتنے والے گھوڑے موجود ہیں اور اس نئی سیاسی جماعت کاہدف بھی یہی ہے کہ صوبائی اسمبلی کے چالیس حلقوں میں امیدوار اتارے جائیں۔مقابلے کا ہدف صرف پی ٹی آئی ہوگی اس لیے پیپلزپارٹی اور نون لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات موجودہیں۔
قومی اسمبلی کے دس سے پندرہ حلقوں پر نظر ہے اور اتنے حلقوں میں اپنے من پسند امیدوار تلاش کرلینا کوئی بڑا کام نہیں ہوگا۔اتنے تو اس وقت قومی اسمبلی میں عمران خان سے ناراض ہوکر بیٹھے ہیں ۔ یہ سب اسی جماعت میں پناہ لے سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین جنوبی پنجاب سے اتنے لوگ جمع کرلیں گے کہ پارٹی جم جائے گی۔چودھری سرور جو سابق گورنر رہے اورپی ٹی آئی نے انہیں عہدے سے ہٹادیا تھا وہ بھی اس پارٹی کی تشکیل کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں ۔ان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اگر اتفاق ہوجائے تو ان کو پارٹی کی سربراہی بھی مل سکتی ہے لیکن میری اطلاعات کے مطابق سربراہی کیلئے علیم خان صاحب زیادہ فیورٹ ہیں۔علیم خان صاحب کو ویسے تو مسلم لیگ نون کی طرف سے اوپن آفر ہے کہ وہ نون لیگ کوجوائن کرلیں ۔انہوں نے بھی حمزہ شہبازکو ووٹ دیا تھا جس کے بعد عدالتی فیصلے کے مطابق وہ رکن اسمبلی نہیں رہے تھے۔ انہوں نے ضمنی الیکشن خود لڑنے سے بھی معذرت کرلی تھی اس لیے وہ نشست لاہور سے پی ٹی آئی کے حصے میں آگئی تھی۔ اگر علیم خان خودیہ الیکشن لڑتے تو یقینی طورپر جیت جاتے۔
علیم خان نے دوہزار دومیں سیاست میں قدم رکھااور پہلا الیکشن قومی اسمبلی کی نشست کا لڑا۔ یہ الیکشن انہوں نے اس وقت کے حلقہ این اے 97 سے لڑاتھاجو لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ،کوٹ لکھپت اور گرین ٹاؤن پر مشتمل تھا۔اس الیکشن میں علیم خان کی ہار پہلے ہی طے تھی کہ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن میں تھے اور یہ سیٹ گریٹر پلان کے مطابق عوامی تحریک کودی جانی تھی۔ علیم خان نے اس کے فوری بعد ضمنی الیکشن لڑااور نہ صرف ایم پی اے بن گئے بلکہ پنجاب کے آئی ٹی کے وزیربھی رہے۔اس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی جوائن کرلی اور اپنا پیسہ اور وسائل اس جماعت کیلئے وقف کردیے۔عمران خان صاحب سے ان کا تعلق اور پی ٹی آئی کو لاہور اور پنجاب میں منظم کرنے کیلئے ان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کا پیسہ پچانے کیلئے لاہور کے دفتر کیلئے گلبرگ میں واقع اپنا گھر وقف کردیا ۔پی ٹی آئی نے دوہزار اٹھارہ کا الیکشن اسی دفتر سے لڑااور جیتا۔وہ خود بھی دوہزار اٹھارہ کا الیکشن جیت گئے لیکن جب ان سے کیاگیاوعدہ پورا کرنے کی باری آئی تو عمران خان مکر گئے اوروزیراعلیٰ بنانے کے بجائے ان کو نیب کی جیل میں ڈلوادیا۔ علیم خان گرفتار ہوئے پھر رہا بھی ۔پی ٹی آئی نے انہیں سینئر وزیربنایا لیکن عمران خان ان کے دل سے اترچکے تھے اس لیے ان کی دلچسپی آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی اورانہوں نے عمران خان کو اپنا استعفیٰ بھجوادیا۔
علیم خان صاحب کے اس نئی سیاسی جماعت میں آنے کے واضح امکانات ہیں اور اگر وہ آتے ہیں تو ممکن ہے وہی اس پارٹی کے سربراہ بن جائیں۔ وہ متحرک سیاستدان ہیں ۔الیکشن لڑنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کے پاس الیکشن لڑنے کیلئے تربیت یافتہ کارکنوں کی ایک ٹیم موجود ہے۔اگر علیم خان اس پارٹی کو جوائن کرتے ہیں تو وسطی پنجاب سے مزید لوگ ان کے ساتھ آجائیں گے ۔ شیخوپورہ سے سابق صوبائی وزیرخالد محمود بھی شامل ہوں گے۔لاہور سے عون چودھری اور پھر عون کے بھائی سابق ایم پی اے امین چودھری بھی اس دستے کا حصہ۔ عین ممکن کہ اسد علی کھوکھر بھی آجائیں اورلاہور سے ہی سابق ایم پی اے نذیر چوہان بھی۔ان کے علاوہ پی ٹی آئی سے ناراض سب لوگ اسی نئی نویلی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔ لاہورکے ایک صحافی عمران بھٹی نے اسی پارٹی کی بابت ٹویٹ کیا ہے کہ’’نئی بننے والی جماعت کا نام عوامی تحریک اتحاد تجویز کیا گیا ہے۔ جھنڈاتین رنگوں پر مشتمل ہوگا۔جب انتخابات کا اعلان ہوگاتب پریس کانفرنس کرکے اعلان کروایا جائے گا۔جہانگیرترین،علیم خان ،چودھری سروراہم ہوں گے۔منشور تیارکیا جارہا ہے‘‘
اگر منصوبے اورپلان کے مطابق یہ نئی جماعت بن گئی اوراالیکشن سے پہلے میدان میں آگئی تو اس کا ہدف پنجاب میں پی ٹی آئی کاپتا کاٹناہوگا اوریہ لوگ اس کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچابھی سکتے ہیں۔ اگر یہ جماعت تیس چالیس نہ بھی سہی بیس پچیس نشستیں ہی جیت گئی تو اس کی حیثیت پنجاب کی حکومت سازی میں موجودہ قاف لیگ سے بھی زیادہ اہم ہوجائے گی، پھر پنجاب میں جس کی بھی حکومت بنے گی وہ اس جماعت سے ڈیل کرنے پر مجبورہوگا۔
عمران خان نے ایک بات کی ہے کہ اس میں کچھ وزن ڈال کردیکھا جاسکتا ہے ان کا کہناہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی راہ ہموار کی جارہی ہے اگر ان کی معلومات یاخدشات درست مان لیے جائیں تو پھر یہی نئی جماعت پنجاب میں ادھ موئی پڑی پیپلزپارٹی کو اقتدار کا ٹیکا لگانے کے کام آئے گی۔ اس منصوبے میں کچھ وزن اس لیے بھی نظرآتا ہے کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجا ب کے صدراورسابق گورنر مخدوم احمد محمود کی جہانگیر ترین سے رشتہ داری بھی ہے اورتعلق بھی اچھا۔ان کی ملاقاتیں بھی جہانگیر ترین سے ہوچکی ہیں اور ایجنڈا بھی کچھ اسی طرح کا کہ پنجاب کی سیاست میں کچھ ارتعاش پیدا کیا جائے۔ اس سیاسی جماعت سے پیپلزپارٹی کو فائدہ اسی صورت ہوسکتا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی خود پنجاب سے اسی نوے نشستیں جیتنے کے قابل ہولیکن فی الحال ایسا کوئی سیاسی ماحول پنجاب میں نہیں ۔ الیکشن جب بھی ہوگا پنجاب میں مقابلہ نون لیگ اورپی ٹی آئی میں ہی ہوگا۔ جنوبی پنجاب اگر اس نئی بنائی جانے والی سیاسی جماعت کے ہاتھ لگ جاتا ہے توپھر وسطی پنجاب سے پیپلزپارٹی کا جیتناناممکن ہوگا۔وسطی پنجاب میں ویسے بھی نون لیگ کا فی اچھی پوزیشن میں ہے اس کاکوئی اگر توڑ کرسکتا ہے تو وہ پی ٹی آئی ہی ہوسکتی ہے جس کے امکانات کافی روشن بھی ہیں۔نون لیگ کی وفاقی حکومت نے عوام کو جو ٹف ٹائم دیاہے اور مسلسل دیے جارہی ہے اس کے بعد نون لیگ کا الیکشن میں جانا اور کامیابی حاصل کرلینا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔اس وقت مہنگائی تیس فیصد سے اوپرچلی گئی ہے اور اس مہنگائی کوبریک لگنے کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے۔مرغی سے آٹااور آٹے سے گھی، سب کچھ مہنگاہے اور لوگوں کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ حکومت کے پاس عوام کودینے کیلئے تسلی بھی باقی نہیں رہی۔ اس پی ڈی ایم نے حکومت کی مدت پوری کرنے کا ٹائم تو اس لیے مانگا تھا تاکہ معیشت بہتر کرکے عوام کو کچھ ریلیف دے سکے اور الیکشن میں جاکر کارکردگی پر ووٹ لے سکے لیکن سب کچھ الٹا ہورہاہے۔اب مریم نوازکو پارٹی کا چیف آرگنائزر بناکرنون لیگ کو الیکشن کے قابل بنانے کا منصوبہ بنایاگیا ہے دیکھتے ہیں مریم نوازاس پارٹی کوالیکشن میں لے جانے کے قابل بناسکیں گی یا ان کو دوبارہ لندن واپس جانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button