ColumnRoshan Lal

آج کا وینزویلا .. روشن لعل

روشن لعل

 

آج کا وینزویلا جیسا نظر آرہا ہے ویسا کیوں ہے اس کا اندازہ اس ملک کے کل کو سامنے رکھے بغیر درست طور پر نہیں لگایاجاسکتا۔ وینزویلا براعظم جنوبی امریکہ کا ایسا ملک ہے جس کی کئی وجوہات شہرت ہیں۔ 1999 میں ہوگو شاویز صدر منتخب ہونے کے بعد وینزویلا کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ممالک کی کشیدگی کا آغاز ہوا کیونکہ امریکہ مخالف نعروں کی بنیاد پر انتخاب جیتنے والے شاویز پر سرمایہ دار دنیا کے شدید تحفظات تھے۔ اس کشیدگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2002 میں امریکی ایما پر وینزویلا کی افواج نے شاویز کو صدر کے عہدہ سے سبکدوش کردیا۔ شاویز کی یہ سبکدوشی 72 گھنٹوں کے اندر اندر اس لیے ختم ہو گئی کیونکہ اس کے حق میں دس لاکھ سے بھی زیادہ لوگ ملک کے دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے بعد شاویز کو ہٹانے والے فوجی جرنیل نہ صرف اسے واپس لائے بلکہ اپنے عہدے چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگئے۔ امریکی جارحیت کے سامنے سرخرو ہونے کے بعد ہوگو شاویز پہلے جیسا نہ رہا ۔ ہوگو شاویز نے 1999 کا صدارتی انتخاب اس وعدے پر جیتا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو معدنی تیل کی بجائے صنعتی و زرعی پیداوار پر انحصار کرنے کی طرف منتقل کرے گا ۔ صدر بننے اور خاص طور پر اپنے خلاف فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد شاویز نے سابقہ حکمرانوں کی طرح تیل کی پیداوار پر انحصار کی پالیسی کو ہی جاری رکھا اور انقلابی معاشی اصلاحات کے نفاذ کو پس پشت ڈال دیا ۔وہ عناصر جن پر شاویز کے خلاف بغاوت کو ہوا دینے اور معاونت کا شک کیا گیا ان میں وہاں پٹرولیم کے شعبے میں سرمایہ کار ی کرنے والی بیرونی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ شاویز نے سوشلسٹ پالیسیوں کے نام پر جب پرائیویٹ شعبے میں موجود تمام اداروں کی نیشنلائز کیا تو صرف اندرونی ہی نہیںبلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی نیشنلائزیشن کی زد میں لایا گیا۔ اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے ایک طرف وہاں پہلے سے ہوچکی بیرونی سرمایہ کاری کا خاتمہ ہو ا اور دوسری طرف نئی بیرونی سرمایہ کاری کا امکان بھی ختم ہو گیا۔ایسا ہونے کے باوجود بھی وینزویلا میں فوری طور پر کوئی معاشی بحران پیدا نہ ہوا کیونکہ بین الاقوامی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنا شروع ہوگئی تھیں۔ ہوگو شاویز کی کینسرکے سبب ہونے والی موت کے بعد وینزویلا کی معیشت تیزی سے نیچے گرنا شروع ہو گئی کیونکہ اس کی موت تک اگر پٹرول کی اوسط قیمت 110.48 ڈالر فی بیرل رہی تو بعد ازاں نمایاں کمی کے بعد 56.70 ڈالر فی بیرل تک نیچے آگئی۔
ہوگو شاویز کے بعد اس کی یو نائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی کا نکولس ماڈیور و صرف اس بنا پر اپنے مد مقابل سے محض1.6 فیصد زیادہ ووٹ لے کر وینزویلاکا صدر منتخب ہوا کیونکہ شاویز کی موت پر اسے ہمدردی کا ووٹ ملاتھا۔مادیورو کے صدر منتخب ہونے کے بعد تیل کی قیمتیںگرنے کی وجہ سے جب وینزویلا کی آمدن میں نمایاں کمی ہوئی تو اس کے نتائج وہاں بدترین معاشی بحران کی صورت میں برآمد ہوئے۔ اس معاشی بحران کے سیاست پر یہ اثرات مرتب ہوئے کہ مادیورو کی پارٹی اسمبلی انتخابات میں کل 167 میں سے صرف55 نشستیں حاصل کر سکی۔ اسمبلی میں اقلیتی پارٹی ہونے کے باوجود مادیورو صرف اس وجہ سے آمرانہ طریقوں سے اپنے صدارتی اختیارات کا استعمال کرتا رہا کیونکہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد شاویز نے اس طرح کے اقدامات کیے تھے کہ اس کے اطاعت گزاروں کے علاوہ کوئی بھی فوج ، عدلیہ اور بیوروکریسی میں اعلیٰ عہدوں تک نہ پہنچ پائے۔ اس طرح کے اقدامات کے باوجود مادیورو، وینزویلا کو معاشی اور سیاسی بحرانوں سے محفوظ نہ رکھ سکا ۔ وینزویلا میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں 2014 کی نسبت 2016 میں افراط زر کی شرح میں 800 فیصد اضافہ ہوا ۔معاشی بحران کی وجہ سے وینزویلا کے قریباً 30 لاکھ لوگ پیدل سرحد پار کر کے ہمسایہ ملک کولمبیا کے راستے
ایکواڈور، پیرو اور برازیل میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ وہاں پیدا ہونے والا سیاسی بحران اس شکل میں ظاہر ہوا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی کے سپیکر جوآن گوایڈو کو صدر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے متوازی حکومت قائم کر لی، یہ حکومت کیونکہ امریکہ اور یورپی ملکوں کے ایماپر قائم ہوئی تھی اس لیے ان ملکوں نے اسے فوراً تسلیم کر لیا۔ سیاسی اور معاشی بحرانوں کے باوجود مادیورو کی حکومت اس وجہ سے ختم نہ ہو سکی کیونکہ اسے روس اور چین کی حمایت حاصل تھی۔ وینزویلا کے معاشی مسائل میں اس وقت کسی حد تک کمی آنا شروع ہوئی جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں پھر سے اضافہ شروع ہوا۔
2019 سے 2022 تک وینزویلا میں مادیورو اور گوویڈا کی متوازی حکومتیں قائم رہنے کی وجہ سے دونوں گروہوں کے درمیان کسی قسم کا مکالمہ ممکن نہ ہو سکا۔ اس دوران یہ ہوا کہ ایک طرف مادیوریو نے بیرونی دنیا کیلئے شاویز کی سخت پالیسیاں جاری رکھنے کی بجائے اپنے رویے میں لچک پیدا کرنا شروع کردی اور دوسری طرف امریکہ نے یورپی یونین کے ملکوں کا روسی تیل پر انحصار ختم کرنے کیلئے وینزویلا کے تیل کی عالمی منڈی میں برآمد پر عائدپابندیاںنرم کرنا شروع کردیں،اس نئی پیشرفت کے بعد مادیورو کی متحدہ اپوزیشن نے وینزویلا میں بننے والی متوازی گویڈا کی حمایت واپس لیتے ہوئے اس کے خاتمے کا اعلان کردیا اور مادیورو کی حکومت کو اس شرط پر تسلیم کیا کہ وہ 2024 میں وہاں صاف و شفاف طریقے سے سب کیلئے قابل قبول انتخابات منعقد کرائے گا۔جن تبدیلیوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کے وینزویلا کی تصویر کیا ہے۔
وینزویلا کی آج کی جو تصویر ہے اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میںاگر یہاں بھی کوئی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو کر فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے من پسند لوگ تعینات کر دیتا تو شاید اس کا اقتدار طویل ہو جاتا مگر پھر بھی بیرونی دنیا سے تعلقات کشیدہ رکھ کر ملک کو معاشی و سیاسی بحرانوں سے بچانے کی نہ کوئی صورت پیدا ہوتی اور نہ ہی عوام کی مشکلات کم ہوتیں۔ وینزویلا میں دیگر وجوہات کے علاوہ جن بنیادی محرکات کے سبب حالات میں تبدیلی کی راہیں ہموار ہوئی ہیںاس کا سہرا وہاں مختلف سیاسی گروہوں کے درمیان شروع ہونے والے مذکرات کے سر جاتا ہے۔ پاکستان میںجن سیاسی گروہوں نے مکالمے کی راہیں مسدود کر کے انتشار پھیلانے کو اپنی ترجیح بنا رکھا ہے ان کے متعلق یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ ان حرکتوں کا نتیجہ ملک میں جاری بحرانی کیفیت میں اضافے یا جمودکے جاری رہنے کے علاوہ کچھ اور برآمد نہیں ہو سکتا۔ہٹ دھرم رویے اختیار کرتے ہوئے جاری بحرانوں یا جمود کو چاہے کوئی جتنا بھی طویل کر دے اس سے کسی کیلئے بھی کوئی آسانی پیدا نہیں ہو سکے گی۔ریاست، عوام اور کسی بھی ممکنہ حکومت کیلئے اس وقت حالات بہتر ہونے کا امکان پیدا ہوگا جب یہاں سیاسی دھڑے انتشار کی سیاست کرنے کی بجائے افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کی طرف مائل ہونگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button