Editorial

خدارا غریب عوام کا بھی سوچیں

خدارا، غریب عوام کا بھی سوچیں!

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو کہہ دیا ہے کہ عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ تمام شرائط پوری کریں گے۔ چین اور سعودی عرب ساتھ کھڑے ہیں۔ آئی ایم ایف سربراہ کو درخواست کی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف نہیں جارہا آپ اپنی ٹیم بھیجیں تاکہ وہ نویں جائزے کو مکمل کرکے قرض کی قسط جاری کرے ۔ دوسری طرف زرمبادلہ کے ذخائر صرف تین ہفتے کے لیے باقی رہ گئے ہیں اور پاکستان کے دوست ممالک مدد کے لیے آئی ایم ایف کے گرین سگنل کے منتظر ہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر گیارہ اعشاریہ چار ارب ڈالرز ہیں اور ماہرین معیشت کے مطابق یہ ذخائر اگلے تین ہفتے کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں، لہٰذا یہ بہت ہی نازک صورتحال ہے اور پاکستان کواپنے قرضوں کو ری سٹرکچر کرانا پڑے گا۔ لیٹر آف کریڈٹ یعنی ایل سی، درآمد اور برآمد میں استعمال ہونے والی انتہائی اہم دستاویز ہے، جو بینک جاری کرتا ہے اور فرد یا کمپنی بینک سے ایل سی حاصل کرکے بیرون ملک کمپنی کو بھیجتے ہیں اس ایل سی میں بینک ادائیگی کا ضامن بنتا ہے لہٰذا لیٹر آف کریڈٹ دیکھنے کے بعد ہی طلب کی گئی اشیا باہر سے بھیجی جاتی ہیں۔ قبل ازیں فرد یا کمپنی مقامی کرنسی بینک میں جمع کراتی ہے اِس کے بدلے میں بینک اُس غیر ملکی کمپنی کو ڈالر میں ادائیگی کرتا ہے لہٰذا جب ڈالر ہی نہیں ہیں تو بینک لیٹر آف کریڈٹ کس کو دیں گے اور غیر ملکی کمپنیاں بغیر ایل سی کے کیونکر اپنی مصنوعات ہمیں بیچیں گی ۔اگرچہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ لیٹر آف کریڈٹ کے اجرا میں مرکزی بینک کوئی تاخیر نہیں کررہا اور نہ ہی اِس حوالے سے مرکزی بینک کی کوئی پالیسی ہے مگر اس کے باوجود کراچی کی بندرگاہ پر ہزاروں شپنگ کنٹینرز رک گئے ہیں کیونکہ بتایا جارہا ہے کہ بینک غیر ملکی زرمبادلہ کی ادائیگیوں کی ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔ پھر سرکار کے حساس اعشاریوں کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 30.60فیصد ہو گئی ہے ۔گزشتہ ہفتے کےمقابلے میں قیمتوں ایک فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے لیکن اِس کے برعکس زمینی حقائق یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور زرعی صوبے پنجاب میں ایک کلو آٹا ڈیڑھ سو روپے میں مل رہا ہے، اورجہاں حکومت کا فراہم کردہ آٹا ٹرکوں پر فروخت کیا جارہا ہے وہاں ہر مردو خواتین سینکڑوں کی تعداد میں قطاروںمیں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مرغی کا گوشت چھ سو روپے فی کلو مل رہا ہے،دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی عام پاکستانی کے لیے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔ صوبائی وزیر خوراک و توانائی حسنین بہادر دریشک کا کہنا ہے کہ صوبے میں گندم وافرہے اور اپریل تک کوئی مسئلہ نہیں لیکن عام بازاروں میں عوام کو آٹا دستیاب نہیں لہٰذا وہ وافر گندم کس کام کی جو عام شہریوں کو دستیاب نہیں اور مردو خواتین طویل قطاروں میں گھنٹوں آٹے کے ایک تھیلے کے لیے کھڑے رہتے ہیں۔عام پاکستانی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے اور بظاہر خاندان کے سربراہ کے لیے خاندان کے افراد کا پیٹ بھرنا اب بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ملک کے معاشی حالات کے اثرات ہر گھر میں نظر آنے لگے ہیں، ایک طرف درآمدات رکی ہوئی ہیں کیونکہ ادائیگی کے لیے ڈالر نہیں تو دوسری طرف ملک کے اندر مہنگائی کا طوفان مچا ہوا ہے، مخصوص لوگ اِس صورتحال سے فائدہ اٹھارہے ہیں مگر عوام کی اکثریت معاشی حالات اور مافیا کے رحم و کرم پر ہے، کیونکہ ارباب اختیار سیاسی جنگ میں مصروف ہیں اور فتح یاب ہونے کے لیے ہر حربہ بروئے کار لارہے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش جنون کی انتہا تک پہنچ چکی ہے، ہر طرف جمہوریت،جمہوریت اور جمہوریت کا ڈھول پیٹا جارہا ہے مگر اُن پاکستانیوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے جو بھوکے سینہ کوبی کررہے ہیں۔ پاکستان کے عوام آج تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی کا سامنا کررہے ہیںاور اُن کے قلیل ذرائع آمدن مہنگائی کے اِس عفریت میں انتہائی کم ہیں۔ آجر اپنی جگہ پریشان ہے اور اجیر کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں، اُجرت میں اضافے کا مطالبہ کرے بھی تو کون اور کس سے کرے سبھی آہ و فغاں کررہے ہیں۔ موجودہ وفاقی اتحادی حکومت تو مہنگائی ختم کرنے اور ملک کی معیشت کو بلندیوں پر لیجانے کے دعوے کے ساتھ آئی تھی مگر معیشت کی جگہ تاریخ ساز مہنگائی کا تحفہ دیکر ماہِ جون میں حالات کچھ بہتر ہونے کی نوید سنارہی ہے۔ عوام کے لیے سفر زیست مشکل جبکہ حکمرانوں کے لیے آسان ہوچکا ہے، عام پاکستانی کے پاس بیچنے کے لیے کچھ رہ نہیں گیا جبکہ حکمرانوں کے اثاثے اور مال و دولت جو بحق سرکار ضبط ہوئے تھے وہ اُنہیں واپس لوٹائے جارہے ہیں لہٰذا سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں کہ برسراقتدار آنے کا مقصد اور کیا تھا اور اگر اقتدار ملتے ہی اپنی راہوں کے کانٹے صاف کرنے کی بجائے کچھ توجہ معاشی مسائل پر صرف کردی جاتی تو یقیناً حالات اتنے زیادہ ابتر نہ ہوتے۔ بھلے دعوے جتنے بھی کیے جائیں، یقین دہانیاں کیسی بھی کرائی جائیں مگر یہ حقیقت ہے کہ بیرون ملک سے انتہائی ضروری اشیا بھی لیٹر آف کریڈٹ نہ ملنے کی وجہ سے ترسیل نہیں ہوپارہیں۔ مقامی اجناس کی قیمتیں حیران کن طور پر بڑھ چکی ہیں۔ متوسط اور غریب پاکستانیوں کو روزگار اور دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کاروباری حجم کم ہورہا ہے۔ مہنگائی بجلی اور گیس اور بے جا ٹیکسوں کی بھرمار سے صنعتوں کی تالہ بندی ہورہی ہے اور لوگ بے روزگار ہورہے ہیں یہی نہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اورلوگ بے روزگاری کی وجہ سے بھوکوں مرنے پر مجبور ہیں لہٰذا پاکستانیوں کی اکثریت کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے نہیں ہیں اور جن کے پاس چند کوڑیاں ہیں بھی تو اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ سیاسی قیادت کو موجودہ صورت حال میں جتنا فکر مند ہونا چاہیے تھا بظاہر نہیں ہیں کیونکہ مرکز اورصوبوں میں اقتدار کی جنگ جاری ہے اور بھوک و ننگ کا شکار عام پاکستانی اس جنگ میں اُن کے پیروں تلے کچلے جارہے ہیں، حالات کی سنگینی کا بروقت ادراک نہ کرکے رہبروں نے وطن عزیز کو اِس دو راہے پر لاکھڑا کیاہے کہ داخلی و خارجی مسائل نے ہمیں اقوام عالم کے سامنے تماشا بنادیا ہے، آج سعودی عرب اور چین ہاتھ کھینچ لیں تو ہماری معیشت کی نبض بند ہوجائے اور ہم دیوالیہ ہوجائیں۔ لہٰذا خدارا ملک کا سوچیں جس نے آپ کو مال و زر کا مالک اور عوام کا حکمران بنایا ہے ، اِس عوام کا بھی سوچیں جو آپ کے پنڈال بھرتی ہے مگر معاشی حالات کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ معاشی حالات چند ماہ میں ٹھیک ہونے والے نہیں اور سالہا سال عوام کی گردن پر چھریاں چلائی جاتی رہیں گی لیکن کوئی تو سیاست چھوڑ کر ریاست کی خلوص دل سے بات کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button