ColumnKashif Bashir Khan

عوام کہاں جائیں گے؟ ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

نئے سال میں نئی مصیبتیں پاکستان کے عوام کی منتظر ہیں۔پاکستانی روپیہ اس وقت ٹکہ ٹوکری اور عوام کی حالت زار بدترین ہو چکی ہے۔پاکستان میں اس وقت جو سیاسی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے اس کی ذمہ دار عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت تیسرے فریق کو قرار دے رہی ہے۔پاکستان اس وقت نہ صرف اندرونی بدترین مسائل کا شکار ہے بلکہ اسے بیرونی شدید خطرات بھی لاحق ہو چکے ہیں جس کا ثبوت پچھلے دو تین ماہ سے پاکستان میں ہونے والی شدید دہشت گردی ہے۔ریاست پاکستان اس وقت شدید خطرات کا شکار ہے جبکہ حکمران صرف اور صرف اپنی اقلیتی حکومت جو کہ بلا شبہ بیرونی مداخلت کے ذریعے انہیں دلائی گئی ہے، کو بچانے کیلئے ہر حد عبور کر چکے ہیں اور وہ کسی طور پر بھی عوام کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اب سوچنے کی بات ہے کہ جو حال انہوں نے نیب قوانین کا کیا اور اپنی اربوں کھربوں کی کرپشن کے پیسوں کو جائز قرار دلایا اس کے بعد وہ پاکستان کے عوام کا سامنا کر بھی کیسے سکتے ہیں؟
وفاقی وزیر خواجہ آصف کے بھاشن نے عوام کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے موصوف فرما رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں توانائی کے شدید بحران کی وجہ سے نہ صرف گاڑیاں رک سکتی ہیں بلکہ تمام کارخانے اور ملیں بھی بند ہو سکتی ہیں،یعنی پاکستان پھر سے پتھروں کے دور میں چلا جائے گا۔وفاقی وزیر کے اس بیان کو ماننے کے علاوہ عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ اس وقت پاکستان میں شدید سردی ہے اور بجلی کی کھپت نہایت کم یعنی قریباً 10 ہزار میگا واٹ اور رسد 45 ہزار میگا واٹ سے زیادہ ہوتے ہوئے بھی لاہور جیسے شہر میں چار سے چھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔گیس تو پہلے ہی نایاب ہو کر عوام کیلئے خواب بن چکی تھی اور اب بجلی بھی عوام کو میسر نہیں۔
قارئین کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان میں نہ تو گیس کم ہے اور نہ ہی بجلی کی کوئی کمی ہے اگر کمی ہے تو اہل اور نیک حکمرانوں کی۔پی ایس او قومی ادارہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچ کر تیل درآمد کرنے کیلئے ایل سی کھولنے سے قاصر ہے اور ملک پاکستان میں توانائی کے ایک بہت ہی بڑے اور خوفناک بحران کا انتظار کیا جا رہا ہے۔اس وقت وفاقی حکومت وہ سب کچھ کر رہی ہے جو وہ ماضی میں کرتی رہی ہے یعنی محترمہ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو وغیرہ کی فحش تصاویر اور کردار کشی۔آج جبکہ ہم 2023میں داخل ہو چکے ہیں تو اپنی کرپشن چھپانے اور عوام کے غیض وغضب سے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مسلم لیگ نون اور اتحادی وفاقی حکومت ملک کے تاریخ کے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان کی غلیظ اور بازاری کردار کشی کرنے میں مصروف ہیں۔
ماضی میں ذولفقار علی بھٹو کو والدہ کو ہندہ قرار دینے والے اور محترمہ بینظیر بھٹو کو پیلی ٹیکسی کہنے والے آج بھٹو کے نواسے اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بیٹے و شوہر کو بھی ساتھ ملا چکے ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ جمہوریت کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو کی طویل جدوجہد کو بھلا کر آمریت کے بطن سے نکلنے والے سیاستدانوں کا ساتھ دینا کبھی بھی محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی کا شیوا نہیں تھالیکن 1977 کے بعد پاکستان میں جو پنیری ضیاالحق نے ملکی سیاست میں لگائی تھی اس نے کرپشن سے نہ صرف اپنے خاندانوں کو اربوں ڈالر سے نوازا بلکہ پاکستان کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا کر خود تو مضبوط ہو گئے لیکن پاکستان کو کمزور ترین کر کے جمہوریت کے نام پر لوٹنے کے عمل کو اب پارلیمنٹ سے بھی جائز قرار دلوا لیا۔پاکستان کے وزیر اعظم نے کل ہی نوید سنائی ہے کہ ان کی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے بات ہو گئی ہے اور انہوں نے تمام سخت شرائط ماننے کی یقین دہانی کروا دی ہے،جس پاکستان میں انڈسٹری بند ہو رہی ہے اور لاکھوں افراد اس حکومت کی بدترین ناقص پالیسیوں کی بدولت بیروز گار ہو چکے ہیں،
کے وزیر اعظم کو اس مہینے 30 فیصد سے زائد شرح مہنگائی میں اضافے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے کو ان کی تمام شرائط ماننے کی یقین دہانی کوئی محب وطن نہیں کروا سکتا اور ان شرائط پر عمل درآمد کرنے کے بعد پاکستان میں معاشی تباہی ناگزیر ہے اور پاکستان میں خانہ جنگی کا خدشہ بلکہ یقین ہے۔ موجودہ حکمران جو کہ اقتدار پر قابض ہیں اول تو یہ اقلیتی حکومت ہے دوسرا ان کا ایجنڈا اپنے میگا کرپشن کے کیس ختم کروانے کے علاؤہ عوام کو زندہ درگور کرنا لگ رہا ہے،جس ملک کی سیاسی اور معاشی حالت اتنی تباہ کن ہو اس کے حکمرانوں کو تو ایک گھنٹے کی نیند نہیں آ سکتی جبکہ موجودہ وزیر اعظم اور ان کے وزراء تو ہر روز نئے نئے شگوفے چھوڑتے ہیں اور عوام کے پیسوں پر چلنے والے قومی ٹی وی اور میڈیا پر پنجابی ڈراموں کی جگتوں کی طرح کے بیانات اور پریس کانفرنسیں کرتے نہیں تھکتے۔
آج لاہور سمیت ملک بھر میں آٹا 150 روپے سے اوپر مل رہا ہے اور عوام کی قوت خرید صفر ہو چکی ہے اور وزیر اعظم اور ان کے وزراء کو عمران خان کے خلاف الزامات سے فرصت ہی نہیں، توشہ خانہ سے کروڑوں کی گاڑیاں اونے پونے لے جانے والے آج بھی پاکستان کے عوام کو ماضی میں طرح بیوقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ روم ڈوب رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔اسی طرح پاکستان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے اور جس طرح 1971 میں ہم نے مشرقی پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کو نہیں مانا تھا اور اپنی سائیکل پر قیام پاکستان کے پوسٹرز لگانے والے اور محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان سے جتوانے والے شیخ مجیب الرحمان کو غدار قرار دیا تھا ویسے ہی آج بھی پاکستان کے عوام کے راے کو بلڈوزر کرنے کی کوشش میں ملک تباہی کے دھانے تک پہنچا دیا گیا ہے۔حسین شہید سہروردی جیسے معمار پاکستان کو ملک بدر کرنے والے آج بھی مصروف عمل ہیں اور مجھے آج یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جب بھی اقتدار سے نکالے جانے پر ملکی دولت لوٹنے کا حساب مانگنے پر ملک سے بھاگ جانے والے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتے۔
پاکستان میں گزشتہ اپریل سے ایک ایسا ٹولہ برسر اقتدار ہے جو بیرونی دوروں پر تو اربوں خرچ کرتا نظر آ رہا ہے لیکن انہیں بھوک اور بے روز گاری سے بلکتے اور بے بس عوام نظر نہیں آتے۔آج مجھے موجودہ وفاقی حکومت کا برسر اقتدار رہنا ملکی سالمیت سے متصادم نظر آ رہا ہے۔جب عمران خان پر قاتلانہ حملے کی سازش بے نقاب ہو چکی ہے اور ایک ڈی پی او اس میں وفاقی حکومت اور نامعلوموں کا آلہ کار ثابت ہو چکا ہے توعوام کے سوچنے کی بات ہے کہ حکمرانوں کی عوام کش پالیسیاں جو دراصل سامراج اور استعمار کے ایجنڈوں کی تکمیل ہیں، کے باعث خدانخواستہ اگر پاکستان کے ساتھ کوئی انہونی ہو گئی تو موجودہ وفاقی حکمران اور ان کے حواری تو بیرون ملک بھاگ جائیں گے عوام کہاں جائیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button