CM RizwanColumn

تمام سیاستدان ناکام ہو چکے؟ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

تمام پاکستانی سیاستدان اب عوام کی نظروں میں ننگے ہو چکے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور کہنے والے یہ سبھی چور ہیں۔ ایک دوسرے کو غدار کہنے والے یہ تمام کے تمام عوام سے غداری اس صورت میں کر رہے ہیں کہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو یہ کرتے ہیں وہ بتاتے نہیں۔ تیسری پارٹی بھی ایمانداری، احتساب اور انقلاب کے دعوؤں میں ناکام ہو کر اب یہاں تک آگئی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر قتل کا الزام لگا کر پاک فوج کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔
سیاست دانوں کی سابقہ تمام تاریخ کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک صرف چار سو خاندان اس ملک کی سیاست پر راج کرتے آئے ہیں۔ ان خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیا جائے تو ان کی تعداد قریباً ایک ہزار بنتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ آج تک یہی بے رحم سیاسی اشرافیہ اقتدار کے ایوانوں میں باری باری بیٹھ کر سسکتے، بلکتے غریب عوام کو خوشحال بنانے، انہیں تین وقت کی روٹی دینے، سڑکیں، گلیاں، تعلیم اور صاف پانی فراہم کرنے کے نعرے لگاتی آئی ہے۔ پاکستان میں بدترین فوجی آمریت کا دور رہا ہو یا جمہوری حکومت کا، حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، تحریک انصاف کی ہو یا پھر ق لیگ کی، اسمبلیوں تک نوے فیصد لوگ انہی ایک ہزار خاندانوں کے جاگیردار، زمیندار، صنعت کار یا قبائلی سردار پہنچتے رہے ہیں۔
جہاں تک ان سیاست دانوں کی تشکیل دی گئی
سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو اس وقت تمام سیاسی جماعتیں محض نام کی جمہوری جماعتیں ہیں۔ عملاً ان نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں کے تمام تر سیاسی و انتظامی فیصلے ان کے لیڈر آمرانہ انداز میں ہی کرتے رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کی حیثیت صرف اتنی سی ہے کہ ایک طرف عشروں سے چلے آ رہے یہ خاندانی لیڈر ہیں اور دوسری طرف ان کی پیروی کرنے والے نسلی کارکن اور درجہ دوم اور سوم کی قیادت ہے۔ اس پر ستم یہ کہ پچاس کی دہائی سے لے کر آج تک انہی ایک ہزار خاندانوں کا مرکزی مقصد اپنے ذاتی اور گروہی مفادات، اپنے رشتہ داروں، اپنے خاندان یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے یا برادری کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ ایک پلڑے میں پاکستان کے نوے فیصد قانون سازوں، ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ذاتی لینڈ کروزرز، محل نما بنگلوں، زمینوں اور جائیدادوں کو رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں اگر پاکستان کے دو سو ملین سے زائد عوام کو ملنے والی سہولیات کو رکھا جائے تو جو فرق سامنے آئے گا اس سے پتا چل جائے گا کہ قوم یا عوام کے مفاد میں انہوں نے کس قدر دھوکہ دہی سے کام کیا ہے۔ اپنے مفادات کیلئے یہ خاندانی سیاست دان کسی بھی جماعت کو چھوڑ سکتے ہیں اور کسی بھی نئے اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان خاندانی سیاست دانوں کو نہ تو نظریات اور نہ ہی قوم و ملک کے ترقیاتی منصوبوں سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی تمام تر ہمدردیاں متوقع مالی فوائد، ممکنہ وزارتوں، عہدوں، اقتدار اور طاقت کے ساتھ نتھی ہوتی ہیں۔ یہ لوازمات جو بھی فراہم کرے گا، چاہے وہ ڈکٹیٹر ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا کسی بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما، ان کی وفاداریاں انہی کے ساتھ ہوتی ہیں اور جونہی ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے یہ جھٹ سے جمہوری لفاظی پر مبنی وضاحتی بیان دے کر ٹریک بدل لیتے ہیں یہ نعرہ ہر مرتبہ جمہور اور جمہوریت کا لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ عملاً ایک طرف ایک غریب ووٹر کی بہن یا بیٹی ہوتی ہے، جسے زچگی کے وقت مناسب سہولیات نہیں ملتیں اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان کی بازی ہار جاتی ہے تو دوسری طرف ایک سیاستدان کی بہن بیٹی ہوتی ہے، جس کے بیوٹی آپریشن کا خرچ بھی حکومت اٹھاتی ہے۔ ایک طرف
ایک ووٹر کی ٹیچر بیٹی ہے، جو کچے پکے راستوں کی دھول پھانکتے ہوئے عمر گزار دیتی ہے۔ دوسری طرف ان قانون سازوں کی وہ بیگمات، بیٹیاں، بھانجیاں اور بھتیجیاں ہیں، جن کی شاپنگ کیلئے پیسہ اور پٹرول تک حکومت کے خزانے سے جاتا ہے۔ ایک طرف سخت گرمی اور پسینے کی بدبو میں کام کرنے والے مزدوروں کے وہ بچے ہیں، جن کے مقدر میں جعلی ادویات لکھ دی گئی ہیں تو دوسری طرف ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی وہ کرپٹ سیاسی اشرافیہ ہے، جس کیلئے سر درد کی دوا بھی بیرون ملک سے آتی ہے اور ان کے گھوڑوں کے علاج کیلئے بھی سپیشلسٹ موجود ہیں۔ ایک طرف غریب کے پسینے سے چلنے والی موٹے ٹائروں والی سرکاری گاڑیاں ہیں،جو سیاستدانوں کے بچوں کو ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر ایئر کنڈیشنڈ سکولوں تک چھوڑتی ہیں، دوسری طرف وہ بچے ہیں جو پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں بسوں اور ویگنوں سے لٹک کر سرکاری سکولوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ جاگیردار، یہ وڈیرے، یہ صنعت کار تحریک انصاف میں جا کر یا کسی دوسری جماعت کا جھنڈا لے کر راتوں رات اپنے عشروں کے مفاد پرستانہ کردار کو بدل ڈالتے ہیں یا بدل دیں گے تو یہ صرف خام خیالی ہوگی۔ دیوانے کا خواب ہوگا کہ ملک وقوم کے مفاد کیلئے کچھ کردیں گے کیونکہ یہ الیکٹ ایبلز، یہ ایک ہزار خاندانوں کے چشم و چراغ، یہ وڈیرے، یہ جاگیردار عمران خان کی جھولی میں بیٹھ کر بھی خیال اپنے مفادات کا ہی رکھیں گے۔ نون لیگ میں جا کر بھی اپنے ٹھاٹ باٹ کیلئے عوام کے ووٹ کا سودا کریں گے۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر بھی یہ پارلیمان اور جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے تک جائیں گے۔
عام ٹھگوں یا نوسر بازوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ پہلے بندے کا اعتماد حاصل کرتے ہیں، اس کے دل میں یقین پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں لیکن لٹ جانے کے بعد انسان کو پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہو چکا ہے۔ انتخابات سے پہلے ہر مرتبہ یہ بازی گر بھی میدان میں اترتے ہیں، ایک مرتبہ پھر ہسپتالوں میں لاعلاج مرنے والوں کا دکھ ان کو ستانا شروع کر دیتا ہے، ہر مرتبہ پھر غریب کی بیٹی کا جہیز نہ ہونے کا غم ان کی راتوں کی نیندیں محض گفتنی طور پر حرام کر دیتا ہے۔ یہ شعبدہ باز ہر مرتبہ وہی پرانے سبز باغ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں دلوا دیں گے، نئی سڑکوں کا جال بچھا دیں گے، ہر دیہات میں گیس پہنچے گی، عام پاکستانی کے بچے مفت پڑھیں گے۔ لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ۔ اب باشعور عوام کو یہ سمجھ آ گئی ہے کہ ان نوسر بازوں نے تو گزشتہ حکومت میں بھی محض خواب دکھائے تھے۔ صرف اپنے مفادات کا خیال رکھنے والے ان جاگیرداروں، وڈیروں اور صنعت کاروں سے تبدیلی کی توقع ایک دیوانے کا خواب ہے۔امید ہے کہ باشعور عوام اس بار ان تمام سیاستدانوں کو مسترد کر کے عوامی انقلاب لانے کی راہ ہموار کرے گی کیونکہ اب یہ تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہو گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button