Columnمحمد مبشر انوار

ڈوبتی موروثی سیاست ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

گو کہ موجودہ عوامی جمہوریت کا سہرا برطانیہ کے سر ہے لیکن فی زمانہ اس جمہوریت کا علم امریکہ نے اٹھا رکھا ہے اور پوری دنیا میں جمہوریت رائج کرنے کی ذمہ داری امریکہ نے اٹھا رکھی ہے۔ مہذب ممالک میں تو خیر جمہوریت حقیقی معنوں میں رائج ہے اور جہاں اس کے ثمرات حقیقتاً و واقعتاً ان ممالک کے شہریوں کو مل رہے ہیںوہیں ان ممالک کی اشرافیہ بھی اس جمہوریت کے مسلمہ اصولوں پر کاربند نظر آتی ہے۔ جمہوریت کے بنیادی اصول کے مطابق، بندوں کو گنا جاتا ہے ،تولا نہیں جاتا،لہٰذا عوامی اکثریت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے نظر آتے ہیںماسوائے اس صورتحال میں کہ اگر کہیں کوئی بے ضابطگی نظر آتی ہے تو متعلقہ ادارے اس کی داد رسی کرتے نظر آتے ہیں۔ بعد ازاں کسی بھی فریق کیلئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ ان فیصلوں کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت کرے اور یوں جمہوری نظام بخوبی روبہ عمل نظر آتا ہے اور شہریوں کیلئے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا نظر آتا ہے۔جمہوری روایات پر عمل درآمد کیلئے امریکی کاوشیں یا اثرورسوخ اس حد تک تو قابل ستائش ہے کہ بیشتر ممالک میں شہریوں کے استحصال، انسانی حقوق کی پاسداری کرنے میں کارآمد ہے لیکن پس پردہ کہیں نہ کہیں جہاں امریکی مفادات ترجیح رکھتے ہیں وہاں امریکی اپنے اس مقصد سے نظریں چراتے بھی نظر آتے ہیں۔ بالخصوص ایسے ممالک،مشرق وسطی،جہاں بادشاہت رائج ہے، ماسوائے یورپی ممالک کہ جہاں بادشاہت اب صرف علامتی حیثیت رکھتی ہے،میں بتدریج جمہوری نظام پر زور دیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہاں امریکی مفادات وابستہ ہے اس لیے زیادہ زور نہیں دیا جاتا بلکہ جمہوری عمل پر پیشرفت انتہائی سست روی سے مسلسل جاری ہے جبکہ مشرق وسطی کی ریاستیں اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ چونکہ وہ عالمی برادری کا حصہ ہیں اور اس کا حصہ رہتے ہوئے انہیں بھی آخرکار مسلمہ روایات کی پاسداری ہی کرنی ہے،اس لیے وہ بھی اپنی ریاستوں اور شہریوں کو بتدریج اس طرف راغب کر رہی ہیں ۔تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان ریاستوں میں شہریوں کے حقوق اتنے بھی سلب نہیں ہیں جتنی اس کی تشہیر مغرب میں کی جاتی ہے یا جس کو مسئلہ بنا کر ان ریاستوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔شہری حقوق کے حوالے سے امریکہ یا مغرب سب سے زیادہ شور خواتین کے حقوق پر اٹھایا جاتا رہا ہے گو کہ یہ طاقتیں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہاں کا کلچر مغربی کلچر سے کلیتاً مختلف ہے لیکن اس کے باوجود وہ حقوق نسواں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اسلامی رہن سہن وبودباش ان طاقتوں کے نزدیک خواتین کو زیادہ آزادی نہیں دیتا اور ان کے نزدیک خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ عالمی برادری کا حصہ ہوتے ہوئے،مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی ختم ہو چکی ہے اور اب ان ریاستوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میںکے مصداق پیمانے بدل رہے ہیں۔
تیسری دنیا میں چونکہ مشرق وسطیٰ جیسی ریاستوں کے معدنی وسائل کی بہتات نہیں ہے لہٰذا اس خطے کو جمہوری کلچر اپنانے کیلئےدباؤ میں لانا قدرے آسان ہے اور امریکی و مغربی طاقتیں اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نیپال،سری لنکا اور اس جیسی کئی دوسری ریاستوں میں آج جمہوری نظام بروئے کار ہے۔ تاہم اس خطے میں شخصیت پرستی کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور عوام میں اس قدر گھر کر چکی ہے کہ لوگ اپنے رہنماؤں کے ساتھ عشق کی حد تک محبت کرتے نظر آتے ہیں اور کسی بھی صورت ان سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کرتے،اس پس منظر میں،ان اندھے مقلدوں کے ہوتے ہوئے،یہ شخصی رہنما بغیر سیاسی اصولوں یا نظریاتی سیاست کی عدم موجودگی میں اپنی عوام کو مسلسل بیوقوف بناتے نظر آتے ہیں۔ نظریاتی سیاست کی عدم موجودگی میں ،ہر سیاسی رہنما نے اپنے مقلدوں کی ایسی حمایت حاصل کر رکھی ہے کہ جن کے ذہن اپنے قائد کے خلاف کوئی بات سننے کیلئے تیار ہی نہیں بلکہ اپنے قائد کے خلاف کی جانے والی کسی بھی غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکت کا دفاع کرنے کو اس سیاسی وابستگی کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ قائد جس کے نقش قدم پر یہ اندھے مقلد چلتے ہیں،کو عوام کے سامنے اپنی غیر قانون و غیر اخلاقی حرکتوں کا جوابدہ ہونا چاہیے جبکہ بالعموم ہوتا اس کے برعکس ہے کہ قائد کی کسی بھی غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکت پر جواب طلب کرنے کی بجائے فریق مخالف کی کردار کشی کی جاتی ہے تا کہ توپوں کا رخ تبدیل ہو سکے۔جمہوری روایات کا ایسا قتل عام ہوتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے،جمہوری عمل کے بنیادی اصول کہ بندوں کو گنا جاتا ہے،کے حصول میں تمام تر انتخابی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے،ووٹوں کو جبراً بیلٹ باکس میں بھر کر اپنی جیت کو یقینی بنانا ہی گویا جمہوریت اور جمہوری عمل ٹھہرتاہے۔
اس سارے مکروہ کھیل میں نادیدہ ہاتھ کا کردار کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کی دو مقبول ترین حریف سیاسی جماعتیںکا کردار اس وقت پوری قوم کے سامنے ہے اور عوام کی اکثریت ان سے متنفر ہوتی نظر آتی ہے۔ ہوس اقتدار میں کس طرح ان مقبول سیاسی جماعتوں نے ڈرائنگ روم کی سیاست کی ہے اور جمہور کی جو تذلیل ان کے دور حکومت میں ہوئی ہے،کسی مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی محال ہے۔بہرکیف اقتدار کا میوزیکل چیئر کا یہ کھیل اس وقت شدید خطرے کا شکار نظر آیا جب ایک تیسری سیاسی قوت عمران خان کی قیادت میں منظر عام پر آئی،ابتداء میں تحریک انصاف کو کوئی خاص کامیابی تو نہیں ملی لیکن عمران نے اس ناکامی سے دلبرداشتہ ہونے کی بجائے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی تا آنکہ اسے 2018میں اقتدار نصیب نہیں ہو گیا۔ حالات و واقعات بہر حال اس امر کی نشاندہی بخوبی کر رہے ہیں کہ عمران خان کو ملنے والا اقتدار کلیتاً حادثاتی یا اتفاقی تھا کہ انتخابات کے فوری بعد موجودہ وزیراعظم کھل کر کہہ چکے ہیں کہ وہ مقتدرہ سے کابینہ تک ڈسکس کرچکے تھے لیکن بدقسمتی سے بھائی جان نے وزارت عظمیٰ کی منظوری نہیں دی وگرنہ عمران خان کسی بھی صورت اقتدار حاصل نہ کر سکتے۔بعد ازاں تاریخ کا حصہ ہے اور بقول عمران خان انہیں ہٹانے کیلئے کوششیں؍ سازشیں اسی وقت شروع ہو گئی تھی لیکن کرونا و دیگرمعاملات کے باعث انہیں منصوبے کے مطابق ہٹاناتاخیر کا شکار ہو گیا اور جب عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو پاکستانی عوام اس کے خلاف سڑکوں پر آ گئی۔ وزارت عظمیٰ کا تاج بہ امر مجبوری شہباز شریف کے سر اس لیے سجانا پڑا کہ عمران حکومت کے رہتے قرین قیاس یہی تھا کہ ماضی کے مقبول سیاسی خانوادے اپنے جرائم کی بنیاد پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے اور ریاست پاکستان کے لوٹے گئے وسائل ان خاندانوں سے بازیاب کروانا بھی ممکن ہو جاتا۔ تاہم وزیراعظم بنانے کیلئے پی ڈی ایم نے ایک بار پھر سیاسی خانوادوں کے وارثوں کو ہی چنا کہ عوامی رہنماؤں میں ایسی کوئی بھی قد آور شخصیت انہیں نظر نہیں آتی کہ اسے اس اہم منصب یا کسی بھی دوسرے اہم ترین منصب کیلئے فائز کیا جا سکے۔ اس خاندانی اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئے ایک طرف پیپلز پارٹی نوجوان بلاول کو چیئرمین کے روپ میں بھگت رہی ہے تو اب مسلم لیگ نون میں مریم نواز کو سینئر نائب صدر اور انتظامی معاملات کا انچارج بنا دیا گیا ہے تا کہ مسلم لیگ نون کو از سر نو زندہ کیا جا سکے۔ یہاں ایک حقیقت واضح ہے کہ گو مسلم لیگ نون کے ووٹرز اور سپورٹرز آج بھی مسلم لیگ نون کے ساتھ ہیں لیکن نئے رجسٹرڈ شدہ ووٹرز کی اکثریت اپنے اسلاف سے بغاوت کر چکی ہے اور ان کی اکثریت تحریک انصاف کے ساتھ ہے البتہ افسر شاہی اور مقتدرہ کا ہاتھ اگر سر پر رہے تو پیپلز پارٹی اندرون سندھ اور مسلم لیگ نون پنجاب میں آج بھی انتخابی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر اپنی اکثریت ثابت کر سکتی ہے بصورت دیگر تحریک انصاف کا ووٹ بنک نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ میں بھی بہت بڑھ چکا ہے اور اس لہر کو شفاف انتخابات میں روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ماضی کی دونوں جماعتیں آج بھی موروثیت؍سیاسی اجارہ داری کی طرف گامزن ہیں جبکہ تحریک انصاف کو توڑنے کیلئے جو حربے استعمال کئے جارہے ہیںاگر کامیاب ہو گئے تو پاکستان میں ڈوبتی موروثی سیاست کو پھر استحکام مل سکتا ہے وگرنہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موروثی سیاست ڈوب رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button