ColumnMazhar Ch

بلدیاتی انتخابات سے گریز کیوں؟ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

پوری دنیا میں لوکل گورنمنٹ سسٹم نہ صرف جمہوری حکومتوں کا لازمی جُز سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں منتخب جمہوری حکومتیںعام طور پرمقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں، پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے ادوار میں پہلی مرتبہ مقامی حکومتوں کی تشکیل سابقہ نون لیگ حکومت میں ہوئی ورنہ اس سے قبل پاکستان میں مقامی حکومتوں کی تاریخ آمرانہ ادوار میں قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں کے گرد گھومتی رہی،عام معنوںمیں مقامی حکومتوں کی اصل رشتہ داری آمریت کی بجائے جمہوریت سے ہے مگر پاکستان میں آنے والے ہر آمر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی جبکہ اس کے مقابلے میں اہل جمہور کے ادوار میں یہ زیادہ تر قبیلہ بدر ہی رہی۔ مقامی حکومتوںکے انتخابات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں فوجی حکومتوں کے ادوار میں لوکل گورنمنٹ الیکشن بروقت کرائے جاتے رہے مگر جمہوری حکومتوں کی طرف سے مجموعی طور پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے سے گریز اور ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی جاتی رہی ہے۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات فوجی حکمرانوں کی ترجیح اس لیے رہے کہ فوجی حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے روایتی سیاسی جماعتوں کا اثرو رسوخ کم کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں۔فوجی حکمرانوں کو ایسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کے بنیادی مسائل تو حل کریں لیکن آمر کیلئے خطرہ بھی نہ بنیں۔ ایوب خان کے ـ’’ بنیادی جمہوریت‘‘کے نظا م سے پرویز مشرف کے’’مقامی حکومتوں‘‘کے نظام تک فوجی آمروں نے اس وقت کی سیاسی قیادت کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے مارشل لاء کی چھتری تلے نئی سیاسی قیادت کو پروان چڑھایا۔ اس کے مقابلے میں جمہوری ادوار میں حکمران،مقامی اداروں کے قیام سے متعدد وجوہات کی بنا پر گریز کرتے رہے۔ سیاسی حکمران ایک طرف ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہوتے تو دوسری طرف مقامی اداروں میں پروان چڑھنے والی نئی مقامی قیادت کا خوف انہیں پریشان رکھتا ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیشتراراکین لوکل گورنمنٹ سسٹم کے اس لیے بھی حامی نہیں کہ ان کے خیال میں مقامی حکومتوں کے نظام کے مضبوط ہونے کا براہ راست نقصان ان کی مقامی سیاست پر ہوگا اور مقامی منتخب افراد ان کے مقابلے میں زیادہ عوامی حمایت اور سیاسی طاقت حاصل کر لیں گے۔اس میں شک نہیں کہ سیاسی حکمرانوں نے درج بالا وجوہات کی بنا پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے میں دلچسپی نہیں لی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں جمہوری حکومتوں کے قبل از وقت ختم کیے جانے کی وجہ سے بھی سیاسی حکمران مقامی حکومتوں کی تشکیل پر کام نہیں کر سکے۔ 2008سے قبل صرف بھٹو حکومت کو پانچ سال سے زائد کا عرصہ ملا اورانہوں نے اپنے دور میںپیپلز لوکل گورنمنٹ کے نام سے مقامی حکومتوں کے ایک جامع اور مربوط نظام کی تشکیل کیلئے کوشش بھی کی، بھٹو دور میں تشکیل پانے والے مقامی حکومتوں کے نظام کیلئے بڑے اور چھوٹے شہروں کیلئے الگ الگ دو قسم کی یونین کونسلیں قائم کی گئی تھیں۔اس دور میں مقامی حکومتوں کے اداروں کے قیام کیلئے پاکستان کے چاروں صوبوں نے لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس جاری کئے تھے اور ان اداروں کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1977تک کرانے کا پروگرام وضع کر لیا گیا تھا لیکن ضیائی مارشل لاء کی وجہ سے مذکورہ انتخابات منعقد نہ ہوسکے۔
اگرچہ پاکستان میں منتخب حکومتوں کے مدت پوری کرنے کا ایک بڑا اہم مثبت اثر مقامی حکومتوں کے نظاموں کی تشکیل اور انتخابات کی صورت میں سامنے آیا ہے لیکن ابھی بھی صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات وقت پر کرانے میں تاخیری حربوں کااستعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کو صیح معنوں میں باختیار بنانے سے گریز کی پالیسی پر کاربند ہیں ۔2013کے عام انتخابات کے بعد چاروں صوبائی حکومتوں نے تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اپنے اپنے لوکل گورنمنٹ نظام تشکیل دیئے اور2015کے آخر تک چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کاانعقاد ہو چکا تھا۔ 2018 میں بننے والی پی ٹی آئی حکومت کے دور میںپنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرونا سمیت سیاسی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوئے۔ اب تک صرف خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا مکمل انعقاد عمل میں آیا ہے۔سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ تو جون 2022میں ہی مکمل کرا دیالیکن کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کوسکیورٹی سمیت کئی وجوہات کی بنا پر متعدد بار تاخیر کا شکار کرایا گیا۔اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات 15جنوری کو ہونے جا رہے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں 31دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات وفاقی حکومت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے۔وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسلز کی تعداد 101 سے بڑھا کر125کرنے کی استدعا کی جسے الیکشن کمیشن نے منظور کرتے ہوئے اسلام آباد کے شیڈول بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دئیے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے جلد ہی وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی الیکشن کرانے پر غور کرنا شروع کردیا ہے لیکن بات اگر نئی حلقہ بندیوں کی طرف گئی تو اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ہونے میں تین ماہ ضرور لگ جائیں گے۔
بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے پنجاب کے عوام سب سے زیادہ بدقسمت رہے کہ ایک تو دیگر صوبوں کے برعکس نئی صوبائی(پی ٹی آئی ) حکومت بننے کی وجہ سے مقامی حکومتوں کا نظام دو سال ہی چل سکا۔پی ٹی آئی حکومت نے مقامی حکومتوں کے نظام میں وسیع تر اور بنیادی اصلاحات لانے کے نام پر نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم تشکیل دیا جس کے تحت پنجاب میں کام کرنے والے مقامی حکومتوں کو وقت سے پہلے ہی تحلیل کر دیا گیا۔کسی حد تک کرونا اور زیادہ تر سیاسی وجوہات کی بنا پرپی ٹی آئی حکومت پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات تاخیر کا شکار کرتی رہی ۔ مارچ2021 میں سپریم کورٹ نے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے اداروں کو بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن اس کے باوجود مقامی حکومت کے ادارے صیح طور پر فعال نہ ہو سکے۔یہاں تک کہ مقامی حکومتوں کے اداروں کی مدت جنوری 2022 کو ختم بھی ہو گئی لیکن پنجاب میں ابھی تک لوکل باڈیز الیکشن نہیں کرائے جا سکے۔لوکل باڈیز ایکٹ میں دو بار تبدیلی سے الیکشن کمیشن کو ایک سے زائد بار حلقہ بندیاں کرنا پڑیں ۔پچھلے سال نومبر کے آخر میں الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ پنجاب میں اپریل 2023کے آخری ہفتے میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔اوپر کی گئی بحث کا لب لباب یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد منتخب سیاسی حکومتوں کی اولین ترجیح نہیں ہے۔عوامی مزاج اور سیاسی منظر نامہ حق میں جا رہا ہو تو صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرا دیتی ہیں ورنہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم اور نئی حلقہ بندیوں سمیت متعددجواز کی بنا پر انتخابات سے گریز کی راہ اختیار کی جاتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو صیح معنوں میں بااختیار بنانے پر تیار نہیں ہوتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button