CM RizwanColumn

سال ختم، کشمیریوں پر ظلم جاری .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

ہر سال کی ابتداء پر راقم الحروف کو اپنی بیوی شمع رضوان کی سالگرہ پر اس کو نیک تمناؤں اور دلی دعاؤں سے نوازنا بہت اچھا اور ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے راقم الحروف کی زندگی میں آنے کے بعد نہ صرف پھول جیسے بیٹے، بیٹیوں کی نعمت اور رحمتیں نصیب ہوئیں بلکہ زندگی کے نشیب و فراز میں اپنائیت، شراکت اور احساس کا جذبہ بھی بقدر وافر ملا۔ آج جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایک پوتا بھی عطاء فرمایا ہوا ہے تو طمانیت اور احساس شکر کے ساتھ یہ دعا دل کی اتھاہ گہرائیوں کی نمائندگی کرتی ہے کہ یہ ساتھ سدا سلامت رہے۔
یہ تو ہے ذاتی زندگی کا ایک ورق جو ہر نئے سال پر الٹتے وقت اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات کا احساس ہوتا ہے لیکن ہماری قومی زندگی کی کتاب کا وہ باب جسے کشمیر کے نام سے لکھا گیا ہے وہ ازل سے ہی لہو لہان ہے اور غاصب ہندو کے ظلم و جبر سے عبارت ہے جس کے ایک ایک ورق پر مجبور کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں بزرگوں، بچوں اور جوانوں کی آہیں، سسکیاں، چیخیں اور جذبہ حریت سے معمور نعرے رقم ہورہے ہیں۔ ایک طرف آزاد کشمیر کو ظلم وجبر سے آزاد دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے کہ پاک سرزمین سے جنت نظیر کشمیر کا الحاق ہے جس پر دونوں اطراف میں فخر محسوس کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف کا جموں و کشمیر ظالم بھارتی فوج کے قبضے میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ فوج مقبوضہ جموں و کشمیر کو 1947 سے یکم جنوری 2023تک بھارت کے غاصبانہ قبضے، فوجی یلغار اور مسلمانان کشمیر کی آواز کو دبانے کیلئے ان پر انسانیت سوز مظالم 75 برس سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ سابقہ پون صدی کے دوران بھارتی فوج نے ظلم وتشدد کا ہر وہ حربہ اختیار کرنے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا جو کہ صدائے حریت کو کچلنے کیلئے استعمال کرنا ضروری خیال کیا گیا ہو۔آج ایک نئے عیسوی سال کے آغاز پر بھی جب مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر نظرڈالی جاتی ہے تو مظلوم کشمیریوں پر تمام قسم کے جبر آزمائے جانے کے خوں آشام نشانات سامنے آتے ہیں اور وہ مظالم ایک طرف جو حریت پسندوں کے جسموں پر آزمائے گئے اور دوسری طرف وہ زخم بھی شامل ہیں جو ان کی روحوں کو پامال کرنے اور ان کے حریت پسندانہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کیلئے لگائے گئے۔ جدید اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے معمور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے یہ امر کافی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں کشمیر کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کے اقدامات کو بھی قبضہ کے پہلے دن سے لے کر آج تک جنگی ہتھیار کے طور پر آزمایا جا رہا ہے۔ ریکارڈ اور حقائق گواہ ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں متعدد ایسے دیہات اور شہری علاقے ہیں جہاں ایک ہی رات میں کئی کئی خواتین سے اجتماعی زیادتی کی گئی۔ اس کے علاوہ بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پچھلے 75 برسوں سے انسانی حقوق کی زبردست خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے ان واقعات کو رپورٹ بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے ہمیشہ ڈھٹائی اختیار کیے رکھی رہی ہے۔ ہر واقعہ کے بعد اُس کا جواب یہی ہوتا ہے کہ یہ محض من گھڑت قصہ یا پراپیگنڈہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت انسانی حقوق کے علمبردار عالمی اداروں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ کو مقبوضہ کشمیر میں جانے اور وہاں کے حالات کا بغور مشاہدہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ پچھلے برس سے لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر بھارتی فوج
بلااشتعال فائرنگ سے آزادکشمیر اور پاکستان میں درجنوں معصوم اور بے گناہ شہریوں کوشہید کرچکی ہے۔ ان واقعات کی عالمی سطح پر تشہیر بھی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اگرچہ پاکستان کے راستے متعلقہ مقامات کے دورے بھی کیے لیکن بھارت کی جانب سے انہیں سرحد پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بھارت کا یہ رویہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کا زبردست بازار گرم ہے اور بھارت ایسے انسانیت سوز واقعات کی پردہ پوشی کیلئے کسی مبصر کو کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دیتا تاکہ کہیں اُس کا پول نہ کھل جائے لیکن اس کے باوجود کشمیری نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے خود پر اور اپنی قوم پر بیتے حالات و واقعات سے دنیا کو آگاہ کرنے کی نمایاں کوشش میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی بھارت کا انتہائی تاریک اور بدنما چہرہ کشمیر کے مرغزاروں اور کوہساروں میں اپنی عفریتی شکل کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔
آج سال 2023 کے آغاز پر بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے جو انسانی حقوق کی زبردست پامالیوں میں ملوث ہے۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ 1958ء کے تحت سکیورٹی فورسز کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ مظاہرین کو کچلنے اور تحریک آزادی کو دبانے کیلئے ہر وسیلہ اور اقدام بروئے کار لا سکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے خواہ وہ انسانی حقوق کی جس قدر بڑے پیمانے پر بھی خلاف ورزی کریں اُن کے خلاف کوئی عسکری یا قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایکٹ مقبوضہ کشمیر میں 1990ء میں نافذ کیا گیا جب کشمیریوں کی مسلح تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی اور مرکزی بھارتی سرکار کے پاس انہیں کچلنے کیلئے کوئی حربہ نہ تھا۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں، اقوام متحدہ وغیرہ نے اس ایکٹ کے نفاذ پر زبردست تنقید بھی کی تھی کیونکہ یہ ایکٹ براہ راست فوجی افسران کو یہ اختیار فراہم کرتا تھا کہ وہ اپنے مشن کی کامیابی اور مرکزی سرکار کے احکامات پر عمل درآمد کیلئے ہر قسم کے حربے اختیار کر سکتے ہیں اور اس ضمن میں انہیں ہر قسم کی قانونی کارروائی سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ بھارت کی طرف سے نافذ قانون ’’افسپا‘‘کے علاوہ بھی مقبوضہ کشمیر میں متعدد کالے قوانین نافذ ہیں تاکہ حریت پسندانہ سرگرمیوں کو مفلوج اور آزادی کے جذبوں کو کچلا جا سکے۔ ان کالے قوانین میں پبلک سیفٹی ایکٹ، ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ، ٹاڈا، پوٹا، نیشنل سکیورٹی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت دیگر شامل ہیں۔ ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ یعنی ڈی اے اے کے تحت پوری وادی کشمیر اور جموں کے دو اضلاع کو شدید متاثرہ علاقوں میں شامل کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل تک کے ملازم کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں ضروری سمجھے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرسکتا ہے۔ اس صورت میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں اس سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر پانچ اگست 2019ء کے بعد سے تو صورتحال اور بھی دگرگوں ہو چکی ہے۔ وادی میں مسلسل کریک ڈاؤن ہے۔ تجارتی ومعاشی سرگرمیوں، سیاحت اور دیگر نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس طرح کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود مہذب دنیا کی خاموشی افسوس ناک ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ، اوآئی سی اور دیگر مقتدر ادارے ہر کچھ عرصے بعد کشمیر کی اس صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ایک مکمل اور ٹھوس انداز میں اقدام اٹھائے کی آج بھی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے بھارت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں بند کرے۔
اب تو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے تسلسل اور خطے میں دہشت گردوں کی مسلسل سرپرستی اور مالی معاونت کے ٹھوس ثبوتوں کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارت کا اصل چہرہ جدید اطلاعاتی دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ اپنی دیگر پرامن سفارتی کوششوں کے علاوہ 22 دسمبر 2022 کو پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں ظلم، جبر جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں دہشت گرد گروپوں کا سرپرست اور مالی معاون ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت نے مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ملک ہونے کا روپ دھار لیا ہے حالانکہ وہ خود دہشت گرد ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ قابض حکام کشمیریوں کی ملکیتی جائیدادوں کو سیل کر رہے ہیں جن میں تعلیمی اداروں کیلئے وقف املاک بھی ہیں جو پسماندہ کشمیریوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں، مرحوم حریت رہنما سید علی گیلانی کی برزلہ سری نگر میں واقع زیر ملکیت ایک جائیداد کو بھی سیل کیا جا رہا ہے۔ بھارت کو ان سنگین ناانصافیوں پر جواب دہ ہونا چاہیے۔ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا واحد راستہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں، کشمیر کے لوگوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت دینا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج ہے۔ہمیں بھارت میں انتہا پسند قوم پرستی کے عروج اور خطے کیلئے اس کے توسیع پسندانہ عزائم پر تشویش ہے، ہم اب بھی بھارتی قیادت کی جانب سے بھگپت کے ایک بی جے پی رہنما کی طرف سے تشدد اور قتل کی حالیہ اپیل کی مذمت کے منتظر ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ گزشتہ ہفتے بھارتی وفد نے ایک بار پھر پاکستان کو نشانہ بنانے اور بدنام کرنے کے اپنے ایجنڈے کو پیش کرنے کیلئے بین الاقوامی فورم پر سیاست کی۔ گزشتہ کئی برس سے بھارت پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے سے روکنے کیلئے ایف اے ٹی ایف کے عمل کو سیاسی بناتا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسی طرح کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ یوں بھارت بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر کام کرنے سے قاصر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button