CM RizwanColumn

2022 فلسطینیوں پر بھاری رہا ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

2022 فلسطینیوں پر بھاری رہا

غاصب اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر سال 2022 میں تشدد عروج پر رہا۔ مشرقِ وسطیٰ کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ٹور وینزلینڈ نے سلامتی کونسل کو اسرائیل فلسطین تنازع کی تازہ صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ 2022 میں مغربی کنارے اور اسرائیل میں 150 سے زیادہ فلسطینی اور 20 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ حالیہ برسوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں میں تصادم، احتجاج، حملوں، اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور دیگر واقعات کی صورت میں بڑھتے ہوئے تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے دونوں جانب شہریوں کے خلاف تشدد میں تیزی سے ہونے والے اضافے پر شدید تشویش ہے۔ تشدد کے نتیجے میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے اور اس تنازع کے پُرامن حل کے امکانات کمزور پڑ رہے ہیں۔ وینزلینڈ کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 21 ستمبر سے 7 دسمبر 2022 کے درمیانی عرصہ کی سہ ماہی رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد بھی مقبوضہ فلسطینی علاقے میں تشدد جاری رہا۔ انہوں نے بتایا کہ 8 دسمبر سے اب تک اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے دو بچوں سمیت چھ فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ بات خاص طور پر ہولناک ہے کہ بچے اور بچیاں تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سال 44 نوعمر فلسطینیوں اور ایک اسرائیلی بچے کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ان میں وہ 16 سالہ فلسطینی لڑکا بھی شامل ہے جسے 8 دسمبر کو راملہ کے قریب عبود نامی علاقے میں مبینہ طور پر پتھر پھینکنے پر اسرائیلی فوج نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے سے تین روز کے بعد جنین میں 15 سالہ فلسطینی لڑکی تلاشی اور گرفتاری کی کارروائی
کے دوران اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں ایسے فلسطینیوں کی متواتر ہلاکتیں بھی پریشان کن ہیں جن سے کسی کی زندگی کو خطرہ نہیں تھا۔ علاوہ ازیں فلسطینیوں کی جانب سے بم حملوں اور فائرنگ سمیت مختلف واقعات میں ہلاک و زخمی ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد میں اضافہ بھی تشویش ناک ہے۔ وینز لینڈ نے تشدد بند کرنے اور اس کے تمام ذمہ داروں کے احتساب کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں اور سبھی کو اسے مسترد کرنا اور اس کی مذمت کرنا چاہیے۔ میں تمام فریقین کے سیاسی، مذہبی اور مقامی رہنماؤں سے کہتا ہوں کہ وہ صورت حال کو معمول پر لانے میں مدد دیں، اشتعال انگیز بیان بازی سے اجتناب برتیں اور تشدد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع انتہائی تشویشناک معاملہ ہے۔ اوسلو امن معاہدے کے تحت کیے جانے والے اہتمام میں ایریا سی قرار دیئے جانے والے علاقے میں اس سال قریباً چار ہزار آٹھ سوگھربنائے گئے البتہ جس عرصہ کے بارے میں یہ رپورٹ دی گئی ہے اس دوران نئی تعمیرات نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی آباد کاروں کے گھروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ گو کہ یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں قدرے کم ہے کہ ٹینڈر 1800 سے 150 پر آ گئے ہیں۔ تاہم سال 2022 کے دوران مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آباد کاروں کے نئے گھروں کی تعداد تین گنا سے بھی بڑھ گئی ہے۔ 2021 میں یہ تعداد 900 تھی جو اب تین ہزار ایک سو تک جا پہنچی ہے۔ اس علاقے میں ٹینڈر دو گنا اضافے کے بعد 200 سے بڑھ کر 400 ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی عمارتوں کو مسلسل منہدم کیے جانے اور ان پر قبضے کے واقعات بھی باعث صد تشویش ہیں۔
فلسطین میں مظلوم فلسطینی عوام پچھلی سات دہائیوں سے زائد غاصب صیہونیت کے جن مظالم کا شکار ہیں انہیں الفاظ میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو 1948 سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری ایک ایسی خونی فلم ہے جس میں مسلسل کردار بدل بدل کر مظلوموں پر ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ قیام اسرائیل کے 75 برسوں کے بعد سے تادم تحریر کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں فلسطینیوں کی اجتماعی خون ریزی یا انفرادی قتل عام یا ان کی ٹارگٹ کلنگ نہ کی گئی ہو، لیکن افسوس کہ ان کی بستیوں کو اجاڑنے کا معاملہ ہویا صدیوں سے آباد خاندانوں کو ان کے آبائی وطن سے محروم کرنے کی بات۔ دنیا کی زبان مسلسل گنگ چلی آ رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم کے ناقابل فراموش واقعات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ انہیں ایک کالم میں نہیں سمیٹا جا سکتا، تاہم دیر یاسین، الرملہ، طنطورہ، کفر قاسم، خان یونس، صبرا اور شاتیلا، برج شمالی، مسجد اقصیٰ، مسجد ابراہیمی، قانا، جنین کا نام سنتے ہی صیہونی دہشت گردی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، جسے کسی صورت بھی ذہنوں سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ماضی میں جرمن نازیوں کے مظالم تو یہودیوں کے خلاف ایک انتہا کو پہنچ کر ختم ہو گئے جس کے بعد سماوی ذلت اور مسکنت کے حق دار ٹھہرنے والے یہودیوں کو مظلوم اور پوتر ثابت کرنے کیلئے دنیا بھر سے ان کیلئے ہمدردیاں سمیٹی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مشرق وسطیٰ کے قلب میں ایک ایسی سرزمین کا مالک بنانے کیلئے عالمی طاقتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جو کہ مسلمان فلسطینیوں کی ہے۔ یہودیوں کی فلسطینی سرزمین پر آبادکاری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جنہیں تاریخ میں ہمیشہ اسرائیل کے سیاہ کرتوتوں کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا، جن کیلئے ہولوکاسٹ سے بہتر کوئی اور تعبیر نہیں ہو سکتی۔ انہی ناقابل فراموش واقعات میں ایک اہم واقعہ صیہونیوں کے ہاتھوں رونما ہوا۔ بیروت کے نواح میں لبنان کے فلسطینی مہاجر کیمپوں صبرا اور شاتیلا میں 15-18 ستمبر 1982 کے دوران ڈھائی جانے والی اس قیامت میں کم سے کم 3500 بے گناہ بچے، بوڑھے، خواتین اور نوجوان خون میں نہلا دیئے گئے۔ امریکی صحافی ٹومس فریڈمین اخبار نیویارک ٹائمز میں اس واقعے کی ہولناکی کو ان الفاظ میں ضبط تحریر میں لائے کہ ’صبرا شاتیلا کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج نے نہتے شہریوں کے خلاف جو سلوک کیا ایسا سلوک کسی سنگین ترین جنگی جرم کے مرتکب گروہ کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ اسرائیلی فوجی 20 اور 30 سال کے نوجوانوں کو ایک جگہ جمع کرتے، ان کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں اور زنجیروں سے باندھتے اور ان پر توپ کے دھانے کھول دیئے جاتے، حتیٰ کہ ان کے جسم کے اعضاء زمین کی گَرد اور کنکر پتھر سب فضا میں بلند ہوتے اور کسی کی لاش تک سلامت نہ رہتی تھی۔ مذہبی منافرت کی انتہا یہ ہے کہ 21 اگست 1969 کو اسرائیلی حکومت نے ایک منظم سازش کے تحت آسٹریلیا کے صیہونی ڈینس مائیکل روہن کے ذریعے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کروایا۔ اسرائیلی حکومت کا فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کیلئے آیا تو اس نے پانی کے بجائے گیسولین کا چھڑکاؤ کیا جس سے مزید آگ بھڑکی اور سب کچھ تباہ ہو گیا۔
بیت المقدس پر صہیونی حملوں کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔مقبوضہ مغربی کنارے کے تاریخی شہر الخلیل کی مسجد ابراہیمی میں فروری 1994 کو نماز باجماعت ادا کرتے 29 مسلمان گولیوں سے بھون دیئے گئے۔ باروخ گولڈ سٹائن نامی شخص نے نماز فجر کے وقت مسجد میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے ان سب کو موت کی نیند سلا دیا جبکہ ڈیڑھ سو نمازی اس واقعے میں زخمی ہوئے۔ ایسے واقعات ہر سال کا معمول ہیں۔تاہم 28 نومبر 2022 کو مشرقی وسطیٰ کیلئے اقوام متحدہ کے ایلچی نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین کشیدگی ایک مرتبہ پھر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے۔ امن عمل میں تعطل کے دوران تشدد میں اس اضافہ پر اقوام متحدہ سمیت دیگر ذمہ دار اداروں کو غور کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button