ColumnImtiaz Ahmad Shad

سالِ نو ہے، سچ بولو ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

سالِ نو ہے، سچ بولو

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی یواین ڈی پی کی جانب سے جاری کی جانے والی انسانی ترقی کی سالانہ رپورٹ بہت سے پاکستانیوں کیلئے شدید تشویش کا باعث بنی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی ترقی کی شرح ہرگزشتہ برس کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ دنیا کے 188 ملکوں میں سے پاکستان کا انسانی ترقی کے حوالے سے 147 واں نمبر ہے۔ پاکستان گزشتہ برس کے مقابلے میںاس سال بھی ایک نمبر پیچھے چلا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے اس ادارے کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں انسانی ترقی کی شرح نہ صرف ہر سال کم ہورہی ہے بلکہ انسانی ترقی کے مواقع بھی تیزی سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف امیر لوگوں کے گرد گھومتی ہے اور سرمایہ کاری کے بہتر مواقع بھی انہی کیلئے ہیں۔ انسانی ترقی کے عالمی جائزے کا آغاز انیس سو نوے میں ایک پاکستانی ماہر معیشت ڈاکٹر محبوب الحق کی سربراہی میں کیا گیا تھا۔ اس جائزے کے مطابق ملکوں کی ترقی کو ان کی اقتصادی ترقی کے ذریعے نہیں بلکہ ان ملکوں میں رہنے والے لوگوں کے میعار زندگی اور لوگوں کی صلاحیتوں کی بنا پر پرکھا جانا چاہیے۔ یہ جائزہ ان ملکوں کے لوگوں کی اوسط عمر، تعلیم، آمدنی اور معیار زندگی مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں بے روز گاری کی شرح 48 فیصد کے قریب ہے جبکہ ملک میں آٹھ کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ افراد بدترین غربت کا شکار ہیں، اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہی تسلسل جاری رہا تو آنے والے دنوں میں یہ تعداد ڈبل ہو سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی نے جب پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے معاہدہ کیا تو یہ بات طے تھی کہ اقوام متحدہ قومی ترقی کی ترجیحات میں دیرپا کردار ادا کرنے کیلئے پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ‘کسی کو پیچھے نہ چھوڑنے کے اصول کو آگے بڑھانے اور ملک کے تمام لوگوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان ون یو این پروگرام ٹو(2013-2017) کے تحت حاصل کردہ نتائج کی بنیاد پر حکومت پاکستان پاکستان کے وژن 2025 میں شامل قومی ترجیحات اور پائیدار ترقی کے 2030 کے ایجنڈے کے تحت وضع کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کو حاصل کرنے میں اقوام متحدہ کے نظام کی رہنمائی کرے گی۔پاکستان میں اقوام متحدہ ایک زیادہ خوشحال، جامع، مساوی اور ترقی یافتہ قوم کیلئے حکومت کے وژن کی معاونت میں ‘ڈیلیورنگ
ایز ون کے نقطہ نظر پر مکمل طور پر عمل درآمد کرے گی۔ پاکستان کیلئے اقوام متحدہ کا پائیدار ترقیاتی فریم ورک (یو این ایس ڈی ایف)، جسے پاکستان ون اقوام متحدہ پروگرام تھری (او پی تھری) 2018-2022 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک درمیانی مدت کی سٹریٹجک منصوبہ بندی کی دستاویز ہے جو پاکستان کی قومی ترقیاتی ترجیحات کے بارے میں اقوام متحدہ کے نظام کے اجتماعی وژن اور ردعمل کو واضح کرتی ہے۔ اس میں حکومت پاکستان کے ساتھ شراکت داری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اور قومی شراکت داروں اور سول سوسائٹی کے ساتھ قریبی تعاون میں کی جانے والی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مگر ہوا کچھ یوں کہ اقوام متحدہ کو سب اچھا ہے، کی رپورٹس دی گئی،اور ملنے والی امداد کا کیا ہوا سوائے چند لوگوں کے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ہماری انہی چالاقیوں اور چالبازیوں نے انجام یہ کر دیا کہ آج سال 2023 کا آغاز بھی ہم قرض کی مے سے کر رہے ہیں اور انجام گلستاں سے بے خبر سیاستدان آپس میں دست و گریباں ہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان انسانی ترقی کے شعبے میں بہت پیچھے کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی کی جنگ، قدرتی آفات، بھاری قرضوں کے بوجھ اور محصولات کی وصولیوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان انسانی ترقی کیلئے درکار رقوم خرچ کرنے کے قابل ہی نہیںرہابعض ماہرین اقتصادی امور کے نزدیک ترجیحات کے درست نہ ہونے اور کرپشن کی وجہ سے پاکستان اپنے ہیومن ریسورسز کو بہتر نہیں بنا سکا، اس لیے صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں یہ اپنے ہمسایہ ملکوں سے بھی پیچھے ہے۔کرپشن اور اقرباء پروری نے یہ حال کر دیا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف امیر لوگوں کے گرد گھومتی ہے اور انہی لوگوں کو ہی صحت اور تعلیم کی معیاری سہولتیں ملتی ہیں، امیروں کو ہی نوکریاں ملتی ہیں اور امیروں کو ہی سرمایہ کاری کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ اقتصادی ترقی کی اس غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے آزادی کے75 برسوں بعد بھی 40 فیصد پاکستانی ایسے ہیں، جن کو روزانہ 2100 کیلوریز یا پیٹ بھر کر کھانا نہیں مل رہا ہے۔ہر حکومت کی طرف سے دی جانے والی پبلک سروسز اسی ایلیٹ کو ملتی ہیں، جو ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ اس پر ستم یہ کہ بڑے پیمانے پر پھیل جانے والی کرپشن نے حالات اس حد تک خراب کر دیے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو چکا بس اعلان باقی ہے۔ اس قدر بے حسی کہ سب جانتے ہوئے بھی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانیوں کو ہر سال کہا جاتا ہے کہ آنے والا سال ترقی کا سال ہو گا مگر ہر آنے والا سال اپنے ساتھ تنزلی لے کر آتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو نہ درست خوراک مل رہی ہے، نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی انہیں دیگر ضروری سہولتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ یاد رکھیںجب تک مساوات والی معاشی ترقی نہیں ہوگی، انصاف پر مبنی معاشی پالیسیاں نہیں بنیں گی،معاشی سہولتوں کا رخ خاص طبقوں کی طرف رہے گاتب تک پاکستانی لوگوں کا میعار زندگی بہتر نہیں ہو سکے گا۔ لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جائیں گے اور ان کے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کے امکانات موجود رہیں گے۔بھوک انسان کو کچھ بھی کرنے پر آمادہ کر لیتی ہے۔ابھی تو شاید عوام کو پوری کہانی معلوم نہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بظاہر نظر آنے والے چند سیاستدان ہیں جن میں کچھ اچھے ہیں اور کچھ برے۔اگر ان خراب سیاستدانوں کو نکال دیا جائے تو اچھے سیاستدان ملک کو بہتر کر لیں گے، اسی امید کے ساتھ عوام کوشش جاری رکھے ہوئے ہے، مگر ڈرو اس وقت سے جب عوام کو پورا سچ معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام کے تحت کو ئی بھی حکومت میں آئے گا کچھ نہیں کر پائے گا۔تب عوام تنگ آمد باجنگ آمد کے مصداق ایسا طوفان کھڑا کرے گی کہ جس کی لپیٹ میں وہ گھر بھی آئیں گے جن کو یقین ہے کہ یہ کیڑے مکوڑے آسمان کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتے۔ابھی وقت ہے سچ بولو،عوام آپ کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی،نیک نیتی سے عوام کی رہنمائی کرو ،عوام سب بھول کر اجڑے ہوئے چمن میں بھی بہار لے آئے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button