Columnمحمد مبشر انوار

بقاء کی جنگ ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے پوری قوم بخوبی واقف ہے لیکن آج اکثریت ان مقاصد سے صرف کتابی حد تک واقف ہے جبکہ عملاً یہ اکثریت اس کے برعکس روبہ عمل ہے۔ تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی کی خاطر جس یکجہتی اور اولوالعزمی کا مظاہرہ کیا تھا ،اس کا اظہار ابتدائی چند سالوں میں پوری ایمانداری اور دیانتداری سے کیا گیا ،جس کا نتیجہ یہ تھا کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی پاکستان نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا بلکہ بہت سے ممالک کی توقعات کے برعکس معاشی طور پر ،اس حد تک مستحکم ضرور ہوا کہ اپنی معاشی وسائل پر قانع رہتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرتا رہا۔تاریخ بتاتی ہے کہ بعد از آزادی،پاکستان کی نو آموز،ہندوستان میں اعلی عہدوں پر فائز زیادہ تر افسر شاہی ہندو تھی جبکہ مسلم افسران کی تعداد معدودے چند ہی تھی،تاہم ان افسران نے اپنی بھرپور توانائی سے زیادہ اپنی عقیدت سے نئی ریاست کو استحکام بخشا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنے ابتدائی سالوں میں ہی طے شدہ رستے سے ہٹ گیا اور جمہوری طرز سیاست سے حاصل کردہ آزاد ملک میں غیر جمہوری طرز سیاست بری طرح ملوث ہو گئی گو کہ اس کی وجوہات میں کسی حد تک اسی افسر شاہی کا گھناؤنا کردار بھی رہا کہ جس کے نتیجہ میں یہاں آمریت کی راہ ایسی ہموار ہوئی کہ اس ملک کو چار مرتبہ آمریت کے عذاب سے گذرنا پڑا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے پہلے دور آمریت میں بھی ملکی ترقی ضروریات کو مقدم رکھتے ہوئے ،پانی وبجلی کے حصول کیلئے بڑے آبی ذخائر تعمیر کئے گئے تا کہ مستقبل میں نہ صرف پاکستان میں آبی قلت،زرعی و صنعتی و گھریلو ضروریات،کا شکار نہ ہو اور ارزاں نرخوں پر بجلی بھی میسر ہو،تا کہ زراعت و صنعت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہے۔ایوب دور آمریت میں یہ مقاصد بہت حد تک حاصل کئے گئے ماسوائے کہ اس کے ثمرات عوام کی بجائے چند خاندانوں تک محدود رہے اور اس پر قانون سازی نہ کی گئی کہ کیسے محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ میری دانست میں یہ عمل مسلسل تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ از خود بہتر ہوتا کہ جیسے جیسے مسائل سامنے آتے ویسے ویسے قانون سازی کرکے محنت کشوں کو ان کے حقوق دلوائے جاتے اور صنعتکاروں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ صنعتی ترقی کے تمام تر ثمرات صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں ۔ بدقسمتی کہیں یا وقت کا دھارا کہ ایوب کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ،محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ دے کر،بڑی عوامی حمایت حاصل کر گئے گو کہ عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں صرف ایک جماعت نے قریباً تمام نشستیں جیت لیں لیکن ہوس اقتدار میں اسے حکومت کا حق نہ دیا گیا،جس میں یحییٰ خان کے ساتھ ساتھ بھٹو کا بھی کردار رہا۔بہرکیف بھٹو نے اقتدار میںآتے ہی ،اپنے انتخابی وعدے کے مطابق محنت کشوں کے حقوق سامنے رکھتے ہوئے،صنعتوں کو قومیالیا اور محنت کشوں کو حقوق کے نام پر اتنی آزادی و طاقت دی کہ اس آزادی و طاقت نے
صنعتکاروں کی سرمایہ دارانہ و انتظامی حیثیت شدید متاثر کیا،نجی صنعت کا چلتا پہیہ رک گیا جس نے ملکی ترقی پر ایک کاری ضرب لگائی۔ تاہم اس دوران بھٹو نے حکومتی سطح پر بڑی صنعتوں کا سنگ بنیاد رکھا،بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو ان اداروں میں کھپایا گیا،جو یقینی طور پر اک احسن اقدام کہا جا سکتا ہے لیکن ان سیاسی کارکنان کی کتنی تعداد ایسی تھی جو واقعتاً ایسی نوکریوں کی اہل تھی؟یا بھرتی کئے گئے افراد میں سے کتنی نوکری کے قابل تھے اور کتنے صرف سیاست کرنے کیلئے ان اداروں کی زینت بنے؟مثبت تاثر رکھتے ہوئے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان اداروں میں بھرتی کئے گئے افراد کی اکثریت قابل ہو گی اور معدودے چند افراد ہی ایسے ہوں گے جنہیں فقط سیاسی غرض سے ان اداروں میں کھپایا گیا ہو گا تو یقینی طور پر ان اداروں کی کارکردگی اور پیداواراس کا ثبوت ہونا چاہیے،جو ماضی میں رہی بھی لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔خواہ ضیا کا دور رہا ہو یا بے نظیر کا یا نواز شریف کا،ان قومی اداروں کے وسائل دن بدن کم ہوتے رہے جبکہ ان کے مسائل میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ صرف ایک پی آئی اے کی مثال سامنے رکھیں تو یہ تلخ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ ائیر لائن،جس نے مشرق وسطی کی کئی ائیر لائنز بنائیں ،آج زبوں حالی کا شکار کیوں ہے؟اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ اس کے وسائل میں اضافہ کی بجائے ،اس کے مسائل میں اضافہ نے اس خوبصورت ادارے کو زمین بوس کر دیا۔
پاکستان سٹیل مل دوسری مثال ہے کہ حکمران خاندان کی ذاتی سٹیل ملز پاکستان سے نکل کر بیرون ملک پھیلتی بھی رہی اور ترقی بھی کرتی رہی لیکن ریاست پاکستان کا یہ منافع بخش ادارہ صرف اس لیے ڈوبتا چلا گیا کہ حکمرانوں نے یہاں ضرورت سے زیادہ افراد کو نوکریوں سے نوازا جبکہ اپنی ملز میں چار بندوں کا کام ایک بندے سے لینے والے،اس ادارے کو اس لیے تباہ کرتے رہے کہ ان کے کاروبار چلتے رہیں۔ انفراسٹرکچر کے نام پر بڑے بڑے غیر پیداواری منصوبوں کا اجراء ،غیر ملکی قرضوں پر صرف اس لیے کیا گیا تا کہ ان قرضوں سے بیر ون ملک اپنی تجوریاں بھری جا سکیں،ملکی وسائل پر انحصار کی بجائے ،چادر دیکھ کر پیر پھیلانے کی بجائے ریاست کو عالمی مالیاتی ساہو کاروں کی دلدل میں دھنسا دیا گیا۔افسوس تو اس امر کا ہے کہ آج بھی ہمارے حکمران اسی روش پر چلتے نظر آ رہے ہیں کہ ایک طرف غیر ملکی مالیاتی اداروں کے دست نگر ہیں تو دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ کاروں انتہائی مخدوش حالات کے باوجود ،مٹی جھاڑتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوتیں دیتے نظر آتے ہیں،جبکہ وہ خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ قول و فعل کے اس تضاد کے باوجود جو اِکا دُکا غیر ملکی سرمایہ کاری اس بدنصیب ملک میں ہوتی نظر آتی ہے،اس پر بغور نظر دوڑائیں تو اس کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں یہی فراڈ اشرافیہ ایسے نظر آتی ہے کہ اس سرمایہ کاری کے پیچھے درحقیقت اس اشرافیہ کے فرنٹ مین نظر آتے ہیں،تمام کے تمام معاہدوں میں ایسی شرائط طے کی جاتی ہیں کہ فائدہ صرف اور صرف غیر ملکی سرمایہ کار کو ملے،یعنی ریاست کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوئے مال اسی اشرافیہ کی تجوریوں کی زینت بنے۔ ویسے اس اشرافیہ نے کمال کا ذہن پایا ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف ان کی ذات اور خاندان تک محدود ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس ذہن نارسا کی یہ تدابیر ریاست پاکستان کے مفادات میں کام آتی لیکن بدنصیبی کہ ذاتی مفادات نے اس ذہن نارسا کو قومی مفاد کی طرف نہیں آنے دیاوگرنہ ریاست پاکستان آج واقعتاً ایشیائی ٹائیگر ہوتی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ریاست پاکستا ن کے پاس نہ وسائل ہیں،نہ صنعت ہے اور ایک زرعی ملک کہلانے والے کو آج خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اشرافیہ کی حالت یہ ہے کہ آج بھی اقتدار کا حصول صرف اس لیے درکار ہے کہ کل تک جو لوٹ مار کی تھی،اس کو کس طرح قانونی طور پر تحفظ دیا جائے،کیسے ان مقدمات سے بچا جائے؟رجیم چینج کے بعد یہ معاملہ بھی انتہائی بخیر و خوبی سے سر انجام پا چکا ہے کہ پارلیمان اور اس میں بیٹھے مٹی کے مادھو کہیں یا لوٹ مار میں حصہ دار کہیں،یہ آپ کی اپنی صوابدید ہے ،چند شخصیات کو ،ایک مخصوص مدت کو سامنے رکھتے ہوئے احتساب کے ایسے قوانین بنا ڈالے ہیں کہ اب کوئی مائی کا لعل سرکاری اہلکار ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ گو کہ یہ ترامیم عدالت عظمی میں زیر سماعت ہیں اور امید تو یہی ہے کہ جیورس پروڈنس کے بنیادی اصولوں کے تحت ان ترامیم کو عدالتی نظر ثانی کے تحت کالعدم قراردیا جائے گا لیکن بہرحال اس فیصلے کا ابھی انتظار ہے اور اگر بالفرض ان ترامیم کو من و عن پارلیمان کی صوابدید مان کر تسلیم کر لیا گیا تو رہی سہی امید بھی ختم اور اشرافیہ کو ملک لوٹنے کی ہمیشہ کے لئے کھلی چھٹی مل جائیگی۔اس وقت ملک جس سیاسی کشمکش سے گذر رہا ہے،اس میں یہ واضح ہے کہ عوام دو حصوںمیں منقسم ہے،ایک طرف اشرافیہ ہے جس نے اس ملک کو پچھلی کئی دہائیوں سے بری طرح لوٹا ہے ،آج بھی لوٹ رہی ہے ،اس لوٹ مار کو محفوظ بھی بنا رہی ہے اوردوسری طرف پسی ہوئی عوام ہے جو اشرافیہ سے حساب لینا چاہتی ہے لیکن اس کا بس نہیں چل رہا۔اشرافیہ اپنی لوٹ مار جبکہ عوام اپنے حقوق اور ریاست کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں،دیکھیں مستقبل کس کی بقاء رکھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button