ColumnNasir Sherazi

کرنے والا کام .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

چودھری پرویز الٰہی دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں، وہ ایک مرتبہ ڈپٹی پرائم منسٹر بھی رہے ہیں، اس حیثیت میں وہ زیادہ فعال نہ تھے لیکن دونوں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے مفاد عامہ میں تیز رفتاری کے ساتھ فیصلے کئے ، وہ آج کا کام کل پر چھوڑنے پر یقین نہیں رکھتے، وہ نرم خو اور سبک خرام ہیں لیکن دونوں ادوار میں وہ تیز گام نظر آئے، ان کے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیراعلیٰ پنجاب بننے میں وہی فرق ہے جو لیفٹیننٹ کرنل اور فل کرنل میں ہوتاہے۔ لیفٹیننٹ کرنل کے ہاتھ میں بٹالین کی کمان ہوتی ہے جبکہ فل کرنل اس سے محروم ہوتا ہے، آپ اُسے کرنل بناسپتی سے تشبیہ نہیں دے سکتے، شاعر نے اُسے چھیل چھبیلا بھی کہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے فرزند چودھری مونس الٰہی جاری عہد میں بہت فعال ہیں، ان کی جماعت قائد اعظم مسلم لیگ کے بارے میں اکثر گمان گذرا کہ ان کی جماعت کا تعلق میری جماعت سے ہے لیکن ابہام دور نہ ہوا۔ مونس الٰہی کی تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم سے متعدد ملاقاتوں کے بعد چند روز قبل دیئے گئے ایک انٹرویو نے تہلکہ مچادیا ہے، انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے، واضح کردیا ہے کہ میرا گمان درست تھا، انٹرویو میںکہی گئی باتوں میں ان کے لفظوں کا چنائو اصحاب کے لیے حیران کن جبکہ بعض کے لیے پریشان کن ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ حرف بہ حرف سچ ہے، ان کے بولے گئے سچ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوںنے اپنی اتحادی پارٹی کے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا ہے اور اس سے بغیر پوچھے کہا ہے جس میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تحریک
انصاف کے لیے خدمات پر اس قدرروشنی ڈالی گئی ہے کہ مکمل چانن ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق سپہ سالار نے تحریک انصاف کے لیے دریائوں کا رخ موڑ دیا اب وہ چلے گئے ہیں تو ان کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں، تحریک عدم اعتماد پر سابق آرمی چیف کے خلاف مہم بلاجواز ہے، انہوں نے واضح کیا کہ وہ جنرل قمر جاویدباجوہ کے کہنے پر تحریک انصاف کے اتحادی بنے اگر انہیں کسی اور طرف جانے کا کہا جاتا تو وہ اُدھر جاتے۔ مونس الٰہی کہتے ہیں تحریک انصاف سے یہ تک کہا کہ ایف آئی آر کاٹنے کے لیے پولیس والا دے دیں لیکن پی ٹی آئی نے نہیں دیا۔ جنرل باجوہ جب تک انہیں سپورٹ کرتے رہے وہ ٹھیک تھے، اب وہ غدار بن گئے ہیں یہ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔ سازشی بیانیے میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ مونس الٰہی کے انٹرویو اور اس میں کی گئی کھری کھری باتوں نے کئی سوال کھڑےکردیئے ہیں جن میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ گفتگو مونس الٰہی کی ہے یا اسے جناب پرویز الٰہی کی تائید بھی حاصل ہے۔ میرے خیال میں دونوں یک جان دو قالب ہیں۔ ایسا ہونا بھی چاہیے،مجھے یقین ہے ایک نے سوچا دوسرے نے کہہ دیا۔ اس سے ایک اور بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا ماضی میں جس قدر دم بھرتی نظر آتی تھیں وہ اب ایک پیج پر نہیں۔ یہ ایک پیج ایک اور اہم پیج کی طرح کتاب سے نکل گیا ہے ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک صفحے کی کتاب اب صرف جِلد رہ گئی ہے۔
یاد رہے جس زمانے میں عمران خان وزیراعظم پاکستان تھے، وہ اپنے بہنوئی کے لاہور میں پلاٹ پر قبضہ چھڑانے میں ناکام رہے تھے، اس مقصد کے لیے انہوںنے نصف درجن پولیس افسران تبدیل کئے جبکہ پنجاب حکومت کے سربراہ جناب عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس بھی بے دست و پا نظر آئے لہٰذا اقتدار جانے کے بعد حملے کی ایف آئی آر کے لیے ایک تھانیدار کا دستیاب نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ عین ممکن ہے خان کے ذہن میں ایسا منصوبہ ہو کہ اگر انہیں دوبارہ اقتدار ملا تو وہ پلاٹ کا قبضہ چھڑالیں گے اور ایف آئی آر بھی درج کرالیں گے۔
مونس الٰہی صاحب کے دیئے گئے انٹرویو کے دو رخ ہیں، اگر خان صاحب ان سے پوچھیں یہ آپ نے کیا کہا تو وہ بھولے سے منہ سے کہہ سکتے ہیں میں نے تاریخ کو درست کیا ہے اگر جنرل قمر جاوید باجوہ پوچھیں تو وہ پولے سے منہ سے کہہ سکتے ہیں ہم احسان فراموش نہیں ہیں، ہمیں تحریک انصاف کے لیے آپ کی طرف سے دی گئی تمام مہربانیاں یاد ہیں۔ مونس الٰہی کے انٹرویو کے بعد اب اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے لیے دشت تو دشت تھے، دریا بھی نہ چھوڑے، بلکہ دریائوں کا رخ موڑ کے رکھ دیا، اس رخ موڑنے سے خان حکومت کئی طغیانیوں سے محفوظ رہی اور پونے چار برس گذار گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دریائوں کا رخ ہی نہیں موڑا بلکہ دریائوں پر بند باندھ کر تحریک انصاف کو بڑے پاور ہائوس میں تبدیل کیا لیکن اسے قوم کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس پاور ہائوس سے اتنی روشنی پیدا نہ ہوسکی کہ ملک میں بسنے والے عام آدمی کا گھرروشن ہوسکے۔
عام آدمی روشنی کے لیے آج بھی امید کی کرن سے آس لگائے بیٹھا ہے۔ میں نے اس انٹرویو کے بعد ایک تھری سٹار دوست سے پوچھا کہ دریائوں پر بند باندھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو مسکراتےہوئے انہوں نے جواب دیا کہ اس کے ذمہ دار مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ہیں۔ باردگر پوچھا وہ کیسے؟ انہوںنے بتایا کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں ندی کے دو کناروں کی طرح ایک دوسرے کے متوازی چل رہی تھیں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کام کررہی تھیں جب دونوں نے اپنے مشترکہ مفادات کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگایا، سی او ڈی پر دستخط کیے اور دونوں نے اقتدار یوں آپس میں تقسیم کیا کہ دونوں ایک ایک باری اقتدار میں ہوں گے اور اپوزیشن میں رہنے والی پارٹی فرینڈلی اپوزیشن کرے گی، مرکز میں اقتداررکھنے والی پارٹی کو اس کے صوبے میں بھی اقتدارحاصل ہوگا جبکہ اپوزیشن میںرہنے والی پارٹی صرف اپنے صوبے میں حکومت کرے گی۔ یوں ملک دو سیاسی جماعتوںنہیں دو خاندانوں کی جاگیر بنا تو خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں، چھوٹے صوبوں کو حصہ بقدر حبثہ دینے پر اتفاق ہوا تو چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی مزید بڑھ گیا، وہاں یہ سوچ ابھری کہ کہ انہیں غیروں کی غلامی سے نکل کر اب اپنوں کی غلامی کرنا ہوگی، اس سمجھوتے کے بعد دریائوں کا رخ موڑنے کے بارے میں سوچا گیا باقی سب تاریخ ہے۔ جنرل باجوہ کہہ سکتے ہیں انہوںنے جو کچھ کیا وہ ملک کے مفاد میں کیا، جنرل پرویز مشرف اور جنرل کیانی نے جو کچھ کیا وہ بھی ملکی مفاد تھا۔ جنرل ضیا الحق کا موقف بھی یہی تھا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے قدم اٹھایاگیا۔ اس سے قبل جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان بھی ملک بچانے ہی آئے تھے۔ پاکستان اپنے قیام کے چھبیس برس بعد دولخت ہوگیا جب سے اب تک ہر پانچ برس بعد نیا پاکستان بنانے والے آتے ہیں۔ اسے لندن اور پیرس بنانے والے بھی اقتدار میں آئے۔ سب کی مشترکہ کوششوں سے پاکستان ایشیا کا ٹائیگر تو نہ بن سکا فقیر بن گیا۔ یہ فقیر اب مسکین بھی بن چکا ہے۔ زکوۃ واجب ہوچکی ہے، یہ اپنے وسائل سے اپنے قرض کا سود ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیتا ہے۔ جب کوئی سود اور اصل زر ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو مہاجن قرقی لے کر آجاتے ہیں۔ مہاجن آیا ہی چاہتے ہیں، میں تو کب سے لکھ رہا ہوں ۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
اسے جب بھی بچائے گا اصلی اور حقیقی نیوٹرل ہی بچائے گا۔ کرنے والاکام ابھی تک کسی نے نہیں کیا یعنی سو بندوں کو پھانسی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button