ColumnM Anwar Griwal

شرم تم کو مگر نہیں آتی! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

برطانیہ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے، ٹیسٹ سیریز کھیلی جائے گی۔ برطانوی کپتان بین سٹوکس نے اپنے ٹویٹ میں پاکستان کی سیلاب کی صورت حال پر دکھ کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ کھیل نے انہیں بہت کچھ دیا ہے، اب کھیل سے آگے کی چیز واپس کرنا ہی درست ہے، انہوں نے سیریز کی اپنی میچ فیس سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عطیہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے، اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ امداد سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقہ تک پہنچ جائے گی۔ وزیر اعظم نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جذبہ برطانیہ کی انسان دوستی کا مظہر ہے۔ انسان دوستی کے ضمن میں ہی بہتر ہوتا اگر ہمارے کھلاڑی بھی کچھ ہمت کرتے اور سات سمندر پار سے آنے والے مہمان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کچھ ایسا ہی اقدام کرتے اور انسان دوستی کا ثبوت دیتے، تین نہیں ایک میچ کی فیس ہی عطیہ کر دیتے۔ افسوس ایسی کوئی اچھی خبر سننے کو نہ ملی۔ غربت، مہنگائی او ر مسائل میں الجھی قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ جن کھلاڑیوں کے لیے وہ میچوں میں دعائیں مانگ رہی ہوتی ہے، سانسیں اٹک جاتی ہیں، انڈیا سے یا فائنل میچ میں کلیجہ منہ کو آرہا ہوتا ہے، جذبات تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں، اُن کھلاڑیوں کی آمدنی کس قدر زیادہ ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ انسان دوستی کا جذبہ کہاں سے لایا جائے۔ یہاں تو انسان دوستی کے ساتھ ساتھ ’’مسلمان دوستی‘‘ کا اضافہ بھی موجود ہے۔
سیلاب کے جو مناظر اور تباہ کاریاں اِس سال دیکھنے میں آئی ہیں، پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے، یہی وجہ ہے کہ پوری قوم جہاں بے حد افسردہ اور پریشان تھی، وہیں مدد کا بے پناہ جذبہ بھی پیدا ہوا۔ فطری بات ہے کہ ایسے مواقع پر جذبہ ہی کام کرتا ہے۔ یہی ہوا، حکومت کا فرض تو تھا ہی، بہت سی فلاحی تنظیمیں بھی میدان میں آئیں ، اور لوگوں نے اپنی طرف سے بھی سامان وغیرہ اکٹھا کیا اور حسبِ توفیق متاثرہ علاقوں تک پہنچے۔ چند ماہ تک تو ماحول کافی گرم رہا، جونہی پانی اُترنا شروع ہوا، لوگوں کے جذبات بھی ٹھنڈے ہونے شروع ہو گئے۔ اور وقت آیا کہ معاملہ چند سرکاری سرگرمیوں اور کچھ فلاحی تنظیموں کی خاموش خدمات تک محدود ہو کر رہ گیا۔
جہاں تک سرکاری سطح پر سیلاب زدگان کی بحالی کا معاملہ ہے، تو اعلانات کے مطابق اربوں روپے اور بہت زیادہ سامان متاثرین کو ملا، یا ملے گا۔ مگر حقیت یہ ہے کہ جب کہیں سرکاری چکر چلتا ہے، تو مدد چلنے کے مقام سے لے کر مدد ملنے کی منزل تک بہت ہی کم چیزیں پہنچ پاتی ہے۔ خرد بُرد کا ایسا چکر چلتا ہے، کہ مدد کا چکر کہیں چکر ا کر راہوں میں ہی کھو جاتا ہے۔ سرکاری اہلکار اچھے کمبل اور دیگر اشیاء دیکھ کر رالیں ٹپکانے لگتے ہیں، اتنی قوتِ ایمانی کہاں سے لائیںکہ امپورٹڈ کمبل ہاتھ آئے اور وہ اسے غریب دیہاتیوں کو دے آئیں؟اس لالچی ذہنیت کے علاوہ کسی سرکاری بندوبست میں ہمیشہ ضرورت سے بہت زیادہ اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عوام بھی حکومت کے قائم کردہ ایسے کسی فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنے سے قبل سو مرتبہ سوچتے ہیں۔ زکوٰۃ والے معاملے کو ہی دیکھ لیں لوگ رمضان المبارک سے ایک روز قبل اپنے پیسے بینکوں سے نکلوا لیتے ہیں، حالانکہ ان میں سے بہت سے لوگ زکوٰۃ دینے والے ہوتے ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے لے کر چین اور ترکیہ سمیت دنیا بھر سے مدد کے اعلانات تھے۔ ضرور کام ہو رہا ہوگا، اسے دکھائی بھی دینا چاہیے، یہ کوئی ایسی نیکی نہیں ہے، جسے ضرور ہی خفیہ رکھنا ہے۔ سرکاری افسران کے اجلاس ، فیصلے اور فنڈز کی تقسیم وغیرہ کی خبریں تو دکھائی دیتی ہیں، مگر کوئی حکومتی نمائندہ کسی سیلابی بستی میں نظر نہیں آتا، کیونکہ کوئی جاتا ہی نہیں۔اگر وزراء یا اسمبلیوں کے نمائندے ایسے علاقوں میں کام کی نگرانی کرتے کسی نے دیکھے ہوں تو قوم کو بھی اطلاع کرے۔
عمران خان ملک کے سابق وزیراعظم اور مقبول ترین اپوزیشن لیڈر ہیں۔ انہوںنے چند گھنٹے کی کاوش سے اربوں روپے اکٹھے کرنے کے اعلانات کئے تھے۔ اگرچہ انہوںنے یہ کام کافی تاخیر سے اور تنقید کے بعد شروع کیا تھا، مگر کام ہو جانے کے بعد اب تک بھی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ جبکہ انہوں نے اپنے جلسے، دھرنے اور مارچ وغیرہ کا سلسلہ بڑے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا اور یقیناً اربوں روپے اس سیاسی سرگرمی پر لگائے ، سیاست میں انہوں نے بہت سے بیانیے بنائے اور بہت سوں سے ’یوٹرن‘ لیا، مگر یہ بیانیہ سننے کو کان اور دیکھنے کو آنکھیں ترستی رہ گئیں کہ خان صاحب کے کروڑوں جانثاروں میں سے چند ہزار ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاتے، اکٹھے کئے ہوئے اربوں روپے اپنے ہاتھوں سے، اپنی نگرانی میں خرچ کرتے، مشکل میں پھنسے ہوئی انسانیت کی خدمت کرتے۔ صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔
سیلاب کی تباہی کے وقت ہی یہ اندازہ لگ گیا تھا کہ یہ معاملہ ہنگامی نوعیت کا نہیں، نہ ہی ایک دفعہ مدد کردینے سے مسئلہ حل ہوگا۔ کیونکہ بحالی ایک بڑا کام تھا، گھر بنانا، فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے سال بھر کی خوراک اور رہنے کا بندوبست کرنا، گرمیوں میں پھیلنے والی بیماریوں سے بچنا، سردیوں سے بچائو کا اہتمام کرنا۔ بیرونی ممالک نے مدد کردی، پیسے دیئے اور سامان بھیجا، عوام نے خدمت کردی۔ مگر جس کو سامان، خوراک، ادویات اور موسمی اثرات سے بچنے کے لئے فوری مدد کی ضرورت ہے، وہ کتنا انتظار کرے؟ (اور کس کا انتظار کرے؟) حکومت کو اپنی ہوش نہیں، عوام کی مہنگائی اور پریشانیوں نے حالت سیلاب زدگان جیسی ہی کر رکھی ہے۔ اپوزیشن کو حکومت گرانے کے معاملے سے فرصت نہیں۔ اگر’’ برطانوی کرکٹ کپتان کا جذبہ انسانی ہمدردی کا مظہر ہے‘‘، تو ہمارے کرکٹروں ، حکومتوں یا اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا جذبہ ’’ذاتی ہمدردی (اور مفاد)‘‘ کا مظہر ہے۔ بین سٹوکس صاحب! آپ کی دی ہوئی مدد ضرور مستحق افراد تک پہنچ جائے گی، ہمارے مدد پہنچانے والے سرکاری اہلکاران وغیرہ بھی سیلاب زدگان سے کم نہیں، آپ کا پیسہ دیہاتی سیلاب زدگان تک نہ پہنچا تو کوئی بات نہیں، فنڈ تقسیم کرنے والے سرکاری ’مستحقین‘ تک تو ہر قیمت پر پہنچ ہی جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button