Ali HassanColumn

پیپلز پارٹی کے پچپن سال .. علی حسن

علی حسن

 

پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کے ۵۵ سال مکمل کر چکی ہے۔ تین بار وفاق میں وزارت عظمیٰ اورایک بار پاکستان کی صدارت اس کے پاس رہی، صوبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ 2008 سے مسلسل اس کے پاس ہے۔ اس سے قبل بھی وزارت اعلیٰ کئی بار اس کے پاس رہی ۔ سوال یہ ہے کہ اتنے طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود کیا پیپلز پارٹی پاکستانی عوام کی توقعات پوری کر سکی۔ حد تو یہ ہے کہ پارٹی سندھ کے کسانوں کیلئے پہلے سے نافذ قانون پر عمل در آمد کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ پارٹی کے قیام کے وقت پارٹی قائم کرنے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ پارٹی کے قیام کے وقت پارٹی پاکستان میں عوام کی تقدیر تبدیل کردینے کی دعویٰ دار تھی۔ لیکن سابق مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پارٹی سابق مغربی پاکستان میں بر سراقتدار آگئی۔ مختلف سیاسی عناصر اور کارکنوں نے پارٹی کے قیام کے وقت ہمہ جہت تبدیلی کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر پارٹی کے قیام کے بعد سے اب تک پوری نہیں ہو سکی۔ پارٹی کا پہلا منشور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے جلال الدین عبدا لرحیم نے تحریر کیا تھا۔ جے اے رحیم محکمہ خارجہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور ذوالفقار علی بھٹو کی خارجہ امور کے معاملے میں انہوں نے ہی تربیت کی تھی لیکن انہیں بھٹو کے پہلے دور میں جس افسوسناک سلوک کا سامنا رہا، وہ پارٹی کے تمام رہنمائوں کیلئے کسی سبق سے کم نہیں تھا۔ پارٹی قائم کرنے والے تمام رہنماء ایک کے بعد ایک پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے گئے۔ پارٹی پہلی بھٹو حکومت میں مکمل ان کے ماتحت تھی۔یہ کہنا کہ جمہوریت ہماری سیاست ہے، صرف کاغذ تک محدود تھا۔ آج بھی پارٹی کے تاسیسی اجلاس کی دستاویزات کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے کہ پارٹی کے قیام کے وقت کیا کیا دعویٰ کیاگیاتھا۔ مرحومہ بے نظیر کے ماتحت جب پارٹی آئی تو بھی پارٹی سے بچے کھچے لوگوں نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ بے نظیر کے بارے میں تو مشہور تھا کہ پیپلز پارٹی میں رائے بے نظیر کی ہوتی تھی باقی مرکزی مجلس عاملہ اور دیگر کمیٹیوں کے اراکین کا اتفاق ہوتا تھا۔
پیپلز پارٹی ایسے دور میں قائم ہو ئی جب ملک میں جنرل ایوب خان کی آمرانہ حکومت تھی۔ انہوں نے اپنی حکومت کو لوگوں کی پارٹی بنانے کی کوشش کی تھی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ بھٹو بھی ایوب حکومت کی کابینہ کے رکن تھے۔ ملک بھر میں جمہوریت کا فقدان اور گھٹن تھی۔ تمام سیاسی حلقے، کیا دایاں بازو، کیا بایاں بازو، کیا آزاد فکر کے حامل عناصر سب ہی متفق تھے کہ ایوب سے نجات حاصل کی جانی چاہیے۔ بہر حال ایسی صورت میں معراج محمد خان ، میر رسول بخش خان تالپور، شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر، جیسے سیاسی کارکن بھٹو کے گرد جمع تھے۔ کوثر نیازی، عبدالحفیظ پیر زادہ جیسے دائیں بازو کے کارکن، غلام مصطفے جتوئی، غلام مصطفے کھر، بڑے زمیندار ممتاز بھٹو جیسے جاگیردار اور جاگیردانہ مزاج کے حامل، آزاد خیال حنیف رامے، ملک معراج خالد، عبدالحمید جتوئی ، دریا خان کھوسو، ہال کی درگاہ کے گدی نشیں طالب المولیٰ مخدوم محمد زمان، رانی پور درگاہ کے گدی نشین کے بھائی پیر عبدالقادر جیلانی، وغیرہ وغیرہ پیپلز پارٹی کی طاقت بن گئے تھے لیکن بھٹو کی آمرانہ اور جابرانہ سوچ پارٹی کو عوام کی پارٹی بنانے میں حائل تھی ۔
پارٹی کا یہ المیہ ہے کہ وہ ماسوائے سندھ، پنجاب اورخیبرپختونخوامیں اپنی جڑیں رکھنے کے باوجود ان کو مضبوط نہیں کر سکی۔ اسماعیل گنڈاا پور، حیات محمد خان آف شیر پائو، وغیرہ نیشنل عوامی پارٹی اور مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام کی مقبولیت کے باوجود پارٹی کو منظم کئے ہوئے تھے ۔ بلوچستان میں بھی پارٹی جتنی بھٹو دور میں موجود تھی اتنی بھی نہیں رہی۔ سندھ میں پارٹی کو بتدریج سندھ یزبان بولنے والوں کی پارٹی بنا دیا گیا۔ حد تو یہ کہ سندھ میں اردو ، پنجابی اور پشتو بولنے والوں کو بھی پارٹی میں اتنا بھی سمویا نہیں جا سکا جتنا قیام کے وقت تھا حالانکہ کراچی سے اردو بولنے والوں نے 1970میں پارٹی کے نامزد امیدواروں کو منتخب کرایا تھا لیکن پارٹی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پارٹی کو نقصان پہنچا۔یہ ایسا ہی ہوا کہ پارٹی پنجاب سے ختم ہوتی چلی گئی،خیبر پختونخوا میں اس کے حامیوں کی قابل ذکر تعداد نہیں رہی، بلو چستان میں پارٹی نام کے چند بڑے سرداروں کی پارٹی تک محدود ہو گئی ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کا ہی المیہ ٰ نہیں بلکہ نیشنل عوامی پارٹی جو پہلے عوامی نیشنل پارٹی تھی،خیبر پختونخوا تک محدود ہو کر پٹھانوں کی پارٹی بنا دیا گیا۔ آج یہ ولی خان خاندان کی پارٹی ہو گئی ہے۔ پارٹی سربراہ اسفند یار ولی پارٹی کے سربراہ، ان کے سمدھی شاہی سید سندھ کے صدر، ان کے بیٹے ایمل ولی صوبہ کے صدر ہیں۔ یہ وہ پارٹی ہے جس میں پختون کے علاوہ اردو بولنے والے، سندھ، پنجابی سب ہی شامل ہوا کرتے تھے۔ محمود علی قصوری اس پارٹی کے پنجاب کے صدر ہوتے تھے، قصور گردیزی پنجاب کے جنرل سیکریٹری،محمود الحق عثمانی مرکزی جنرل سیکریٹری، حیدرآباد میں وسیم عثمانی اور باقر شاہ ہوا کرتے تھے ، آج پارٹی کہا ںکھڑی ہے۔
مسلم لیگ (جو اب نواز شریف گروپ کی پارٹی ہے) بھی اب صرف پنجاب تک محدود ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل پیر پگارو کے دست شفقت کی وجہ سے زندہ ہے۔ پیر پگارو خود پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی پیر صدر الدین صوبہ سندھ کے صدر ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کی قوت اور مقبولیت مدرسوں تک ہی محدود ہے،اسے ضیاء دور سے جس ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کیا گیا، اب خال خال رہ گئی ہے۔ ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں کا المیہ رہا ہے، کہ وہ عوام میں منظم نہیں ہو سکے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کے گرد گھومتی تھی اور ان کا حکم حرف آخر ہوتا تھا۔ یہ سب سیاسی جماعتیں ایک ایک ہجوم کی جماعتیں رہ گئی ہیں لیکن اس خوش فہمی کا سب ہی شکار ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ عوام ہجوم کی صورت میں ضرور ہیں لیکن وہ بھی غیر منظم پارٹی ہے۔ یہ ساری سیاسی جماعتیں فرد واحد کی مرہون منت ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اس لئے بچ گئی کہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو موجود تھیں لیکن بے نظیر نے اپنی ماں کو ہی مجبور کر دیا تھا کہ وہ ان کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔ اس طرح بے نظیر بھٹو پارٹی کی سربراہ بن گئیں۔ بے نظیر کی موت کے بعد ان کے رنڈوا شوہر آصف علی زرداری نے پارٹی کی سربراہی سنبھال لی۔ پارٹی کے سربراہ بھی بن گئے ۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دوسرے نام سے رجسٹرڈ پارٹی کا سربراہ نامزد کر دیا۔ خود پاکستان کے صدر بھی بن گئے۔ آصف زرداری نے پارٹی کو ڈرائنگ روم کی پارٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔ امیدوار و ہی بن سکتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو اور وہ الیکشن میں اپنے دم سے کامیابی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پیپلز پارٹی سمیت ان پارٹیوں کی مرکزی مجلس عاملہ کی حیثیت ’’جی جناب‘‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ اراکین کے خیالات کو سنی ان سنی کر دیا جاتاہے۔ اسی سبب تمام رہنماء جی حضوری کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ انہیں ہر آنے والے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ چاہیے ہوتا ہے۔ امیدوار اس گمان میں پھنسے ہوئے ہیں کہ پارٹی کا ٹکٹ ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسی لئے ایک دفعہ کامیابی کے بعد آراکین اسمبلی اور وزراء کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے، عوام کو پوچھتے تک نہیں۔ حال ہی میں سندھ میں جو تباہ کن بارشیں ہوئیں اور سیلاب آیا ، لوگ بے گھر ہوئے لیکن کسی رہنماء نے لوگوں کو ایک نوالہ بھی فراہم نہیں کیا۔
سیاسی جماعتوں کو فرد واحد کی جماعت بننے کی بجائے عوام کی جماعت بننے کی ضروورت کو سمجھنا چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہو اور غیر آئین طاقتیں ملک کے نظام حکمرانی میں دخل اندازی سے دور رہیں تو ان کی موجودہ قیادتوں کو اپنی اپنی موجودہ حیثیتوں سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔ مسلم لیگ نون میں جس طرح نامزدگی کے ذریعے نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو نائب صدر مقرر کر دیا، کیا وہ جمہوری عمل تھا۔ اور اب کہا جا رہا ہے کہ انہیں پارٹی کی صدارت سونپی جارہی ہے۔ اس سارے عمل میں کسی سے رائے نہیں لی گئی۔ جس طرح نامزدگیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے اب تک ابتداء کے تمام ہی رہنماء علیحدگی اختیار کر گئے اسی طرح نون لیگ سے بھی لوگ رخصت لکھوائیں گے۔ جب سیاسی جماعتوں سے جمہوریت رخصت ہو جاتی ہے تو ملک سے بھی جمہوریت کو رخصت ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button