Editorial

سودی نظام کے خاتمے میں حائل مشکلات

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے غیر رسمی سودی نظام کو بہت بھیانک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ممکن ہے،غیر رسمی سودی نظام سے غریب شدید متاثر ہوتے ہیں اور21فیصد اسلامی بینکنگ سسٹم آچکاہے۔ اسلامی بینکنگ کے اثاثے سات ٹریلین روپے کی سطح پر ہیں، اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ معیشت کو بھی بھنور سے نکالنا ہے۔ اسلامی بینکنگ کی پراڈکٹس کو سستا کرنا، میوچل فنڈز اور انشورنس کو اسلامی بنیاد پر لانا ہو گا، اسلامی بینکاری نظام کو روایتی بینکاری نظام پر برتری حاصل ہے، اس مقصد کے لیے وزارت خزانہ میں ایک ونگ قائم کردیا جائے گا، اسلامی نظام معیشت کے حقیقی فوائد کے لیے میوچل فنڈ اور انشورنس کے بزنس کو بھی اسلامی سانچے میں ڈھالنا ہو گا، سود کے خلاف اپیلیں واپس لینا میری ترجیحات میں شامل تھا۔ رواں سال اپریل میں وفاقی شرعی عدالت نےبیس سال بعد سودی نظام معیشت کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دے کر حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی تھی وگرنہ قبل ازیں ہم مذہبی سکالرز، علما کرام اور مفتیان کا سودی نظام کے خاتمے کے لیے مطالبہ ہی سنتے رہے ہیں لیکن وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ انٹرسٹ فری بینکنگ قابل عمل بینکاری ہے، یہ عدالت وفاقی حکومت کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی کہ یہ قابل عمل نظام نہیں۔ ملک میں ربا سے پاک بینکاری بھی ہورہی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا قانون بھی سود سے پاک بینکاری کی اجازت دیتا ہے۔ ربا کو ختم کرنا مذہبی اور آئینی فریضہ ہے اور اسلامی نظام معیشت قابل عمل طریقہ کار ہے۔ اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو گی۔ اسلامی نظام معیشت ربا کی ممانعت کرتا ہے اور ربا کی روک تھام ہی اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ہے۔ اِس سے بھی پہلے ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کا مجوزہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیاگیا تھا۔ سود کے معاملے پر تمام مسالک کی جید شخصیات، سکالرز، مفتیان، علما غرضیکہ سبھی متفق ہیں کہ سود کا خاتمہ کرکے ہی معاشی مسائل سے باہر نکلا جاسکتا ہے کیونکہ ہم اپنے سودی نظام کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور سود کے خاتمے کے بغیر ہم کوئی جنگ جیت نہیں سکتے، ہم اربوں ڈالرز صرف سود کی مد میں دے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ اور سود ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ ریاست مدینہ میں سود سب سے پہلے ختم کیا گیاتھا اور تمام مسلمان ممالک میں سود سے چھٹکارے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اس لیے بالاتفاق ایک متبادل نظام وجود میں لایا جاسکتا ہے جس کو ستاون مسلمان ممالک اختیار کرلیں تو دنیا کے مالیاتی سیٹ اپ میں یہ ایک بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا جسے سرمایہ داری نظام کے وارث بہ امر مجبوری قبول کرلیں گے، پھر وطن عزیز کے آئین میں بھی نظام معیشت سودسے پاک لکھاگیا لیکن بدقسمتی سے حکومتوں نے اِس پر عمل نہیں کیا اور حالیہ کیس میں بھی بارہا نہ صرف سودی نظام کے خاتمے کو معیشت کے لیے ناقابل عمل قرار دیاگیا بلکہ عدالتی احکامات پر بار بار نظرثانی کی اپیل دائر کی جاتی رہی یوں یہ معاملہ قریباً بیس سال سے عدالتوں میں زیر سماعت رہا مگر بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام معیشت کے خلاف تمام فریقین کا موقف سننے کے بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیا اور حکومت کو سودی نظام ختم کرنے کے لیے مہلت دی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بھی پچھلے دنوں واضح کیا تھا کہ حکومت اِس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرے گی اور اُن کا یہ اعلان مذہبی حلقوں میں زبردست سراہا گیا مگر تاحال مختلف قومی بینک وفاقی شرعی عدالت کے اِس فیصلے کے خلاف اپیل لیکر عدالت میں موجود ہیں اسی لیے مذہبی حلقوں میں بے چینی بھی پائی جارہی ہے اور اگرچہ اسحق ڈار نے حرمت سود پر ہونے والے سیمینار میں حوصلہ افزا باتیں کہی ہیں مگر سودی نظام معیشت کے خلاف دو دہائیوں سے زائد تک جدوجہد کرنے والے اب مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت قومی بینکوں پر اپیلیں واپس لینے کے لیے دبائو ڈالے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ وزارت خزانہ میں ایک ونگ قائم کردیا جائے گا،مگر واضح رہنا چاہیے کہ قومی بینک اپیل میں ہیں اور پہلے ہی اِس کیس کا فیصلہ بیس سال بعد ہواہے، گر کہا جائے کہ پانچ سال میں سودی نظام کا خاتمہ ہوجائے تو بلاشبہ اِس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ بینک صارفین کی بڑی تعداد اسلامک بینک کو ترجیح دیتی ہے اسی لیے اکیس فیصد بینکاری بغیر سود کے ہورہی ہے لہٰذا حکومت پر منحصر ہے کہ اِس مقصد کے لیے کتنی تیزی سے اقدامات کرتی ہے تاکہ جلد از جلد سودی نظام کا خاتمہ ہو، مگر کیا بین الاقوامی مالیاتی ادارے جو ہمیں قرض دے کر سودی نظام میں جکڑتے بھی ہیں اور ہماری سلامتی اور مفادات کو خطرے میں ڈالنے کے مذموم مقاصد بھی رکھتے ہیں۔ ہمیں دیکھناہوگا کہ کیا عالمی مالیاتی ادارے ہمیں سودی نظام سے نکلنے دیں گے اور ہمارے اپنے ادارے بھی سود کے بغیر بینکاری کے لیے کتنے تیار ہوں گے۔ ہم سودی نظام سے باہر نکلتے ہیں تو ہمیں معیشت اور ہر معاشی معاملہ سود کے بغیر ہی چلانا پڑے گا بلاشبہ جو لوگ ہمیشہ سے سودی نظام پر انحصارکرتے آئے ہیں وہ اسلامی بینکاری نظام کی شدید مخالفت کریں گے، لہٰذا ہمیں خلوص نیت کے ساتھ سود کے بغیر نظام پر منتقل ہونا ہوگا اور یقیناً اِس کوشش کے خلاف ملک کے اندر اور باہر سے زبردست مزاحمت ہوگی پس ارباب اختیار یعنی حکمرانوں کو دیکھنا ہوگاکہ وہ کیسے اِن چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں، جب سود سے پاک نظام ہوگا تو بلاشبہ اوپر سے نیچے تک عامۃ الناس مطمئن بھی ہوں گے اور غیر روایتی نجی سودی نظام کا بھی خاتمہ ہوگا جو پہلے ہی پنجاب حکومت کی کوششوں سے جرم قرار دیا جاچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button