ColumnRoshan Lal

ایک اور لانگ مارچ کے بعد .. روشن لعل

روشن لعل

 

عمران خان کے اسلام آباد روانہ کئے گئے ایک اور لانگ مارچ میں اڑنے والی دھول ایسے سابقہ ناکام معرکوں میں اڑنے والی مٹی کی طرح ایک مرتبہ پھر بیٹھ چکی ہے ۔ اس لانگ مارچ کیلئے بنوائے گئے سینکڑوں میٹر لمبے بینرز اور بے شمار جھنڈے اب ایسی جگہوں پر پہنچ چکے ہیں جہاں گندی مشینیں صاف کرنے کیلئے پرانے کپڑوں کی کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ قبل ازیں عمران خان کا ہر لانگ مارچ حکومت کے خاتمے کا مقصد حاصل کیے بغیر ایک مزید لانگ مارچ کی تیاری کے اعلان کے ساتھ ختم کیا جاتا رہا مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ۔ عمران خان نے 10 اپریل 2022 کو اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد نئی بننے والی حکومت کے خاتمے کی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ بہت جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرتے ہوئے نئی حکومت کو گرا دیں گے۔ اعلان کے مطابق عمران خان نے 22 مئی کو پشاور کے جلسہ میں یہ اعلان کیا کہ وہ 25مئی کو ااسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کریں گے اور نئے انتخابات کی تاریخ لیے بغیر وہاں سے واپس نہیں آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے مشروط احکامات کا سہارا لے کر عمران خان اسلام آباد داخل ہوئے جہاں ان کے پرستاروں نے عدالت کی عائد کردہ شرائط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جلائو گھیرائو کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ عمران خان کی خواہشوں کے مطابق کچھ بھی نہ کر سکے ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب عمران خان نے اس لانگ مارچ کا اعلان کیا اس وقت طے ہو چکا تھا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو قرض کی قسط ادا ہونے سے پہلے شہباز حکومت کو ہر صورت تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ جس دن عمران خان کا لانگ مارچ اسلام آبا د پہنچا اسی دن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا۔ عمران خان نے سوچا تو یہی تھا کہ وہ پٹرول کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کو اپنا لانگ مارچ کامیاب بنانے کیلئے ہتھیارکے طور پر استعمال کریں گے مگر وہ ایسا نہ کرسکے اور نئے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیے بغیر محض اس کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد سے چلتے بنے۔
مئی 2022 کے ناکام لانگ مارچ کے بعد عمران خان کسی تاریخ کا اعلان کیے بغیر کئی ماہ تک نیا لانگ مارچ اسلام آباد لے جانے کے نعرے لگاتے رہے۔ آخر کار انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ 28 اکتوبر کو لاہور سے لانگ مارچ شروع کرکے اسلام آباد پہنچیں گے اور اپنے مطالبات منوائے بغیر وہاں سے واپس نہیں آئیں گے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ کیوں عمران نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے موقع پر لانگ مارچ شروع کیا ۔لانگ مارچ کو شروع کرنے کے پیچھے عمران خان کے مقاصد تو کچھ اور ہی تھے مگران مقاصد کے حصول کیلئے ایک مرتبہ پھر ان کے حواری لوگوں کو مطلوبہ تعداد میں اپنے مارچ میں شریک نہ کر سکے۔ لوگوں کے مطلوبہ تعداد میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے صاحب فہم لوگوں نے مارچ کے آغاز پر ہی اس کی ناکامی کا اعلان کر دیا تھا۔ عمران خان پر حملے کے بعد ان کی عدم شرکت کی وجہ سے یہ لانگ مارچ محض رسمی کارروائی بن گیا ۔ نومبر کا آخری عشرہ شروع ہونے سے پہلے جب جی ایچ کیوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے سلسلے میں شارٹ لسٹ ناموں کی سمری کی تیارہونا شروع ہوئی تو عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسے اور وہاں اپنی شرکت کا اعلان کردیا۔ راولپنڈی جلسے سے دو دن قبل حکومت نے نئے آرمی چیف کی تقرری کی سمری صدر کو بھیجی جس پر صدر عارف علوی نے کسی قدر ڈرامائی انداز میں اسی روز دستخط بھی کر دیئے۔
آرمی چیف کی تقرری کے بعدیہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں کہ عمران خان کے جس لانگ مارچ کو پہلے دن ہی غیر تسلی بخش سمجھ لیا گیا تھا اب اس کے مزید مجہول ہونے میں کوئی شک نہیں رہ گیا۔ اس مجہول سمجھے جانے والے لانگ مارچ اور راولپنڈی کے جلسے میں عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر کے اچانک سنسنی خیزی پیدا کردی۔ عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کے بعد وہ ہیجان انگیزی واپس جانے سے پہلے ہی پھر لوٹ آئی ہے جسے آرمی چیف کی تقرری کے بعد کسی حد تک ختم تصور کیا جانے لگاتھا۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پرتحریک انصاف میں تحفظات کا تاثر موجو دہونے کے باوجود حکومت نے دونوں اسمبلیاں بچانے کیلئے اپنے طور پر کوششیں شروع کردی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ اگر یہ اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو پھر حکومت کے پاس ملک کی تمام اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات کا اعلان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
اس صورتحال میں سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اپنی حکومت جانے کے بعد عمران خان نے دستیاب کمزور بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ہوئے جو بھی کھیل کھیلا وہ جواثابت ہوا۔ لگاتار اس طرح جوا کھیلتے ہوئے عمران خان بہت کچھ ہار چکا ہے ، اب ، اس نے جو آخری دائو لگایا ہے اس میں اگر وہ جیت بھی گیا تو ملک کے مسائل ایک طرف، اس کی اپنی مشکلات بھی ذرہ برابر کم نہیں ہونگی۔طاقتور بیساکھیاں کیا عمران خان کو تواب کمزور بیساکھیوں کا آخری سہارا بھی میسر نہیں رہا۔ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہاں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے اب یہاں کسی کو بھی دستیاب نہیں ہیں ۔ بیساکھیوں کے عمل دخل کے بغیر ہونے والے ہر الیکشن میں عوام کی رائے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ عمران خان کا اگر یہ خیال ہے کہ اس کی حکومت جانے کے بعد اسے اس کے خاص بیانیے کی وجہ سے ملنے والے ووٹ اس کی ملکیت بن چکے ہیں تو ا س خیال کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔جب یہاں ہر کسی کے حاصل کردہ ووٹوں اور سیٹوں کا گراف اوپر نیچے ہونے کا امکان موجود ہے تو پھر مناسب ترین لائحہ عمل یہ ہے کہ سیاسی مخالفت کے باوجود کسی بھی آئندہ الیکشن سے قبل یہاں تمام سیاسی جماعتوں درمیان کسی ایسے طریقہ کار کے مطابق الیکشن کرانے پر اتفاق رائے پیدا ہو جس کے تحت کرائے گئے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کا ہرکوئی پابند ہو اور ان نتائج کے بعد بننے والی اسمبلی یا حکومت کو ئی بھی غیر آئینی طریقے سے ختم کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے ۔ عمران خان کو اگر یہ یقین ہے کہ وہی ہر صورت میں انتخابات جیتے گا اور اسی کی حکومت قائم ہو گی تویہ بات کسی اور سے زیادہ اس کیلئے فائدہ مند ہے کہ اسے اگر ایک نئے میثاق جمہوریت کی دعوت دی جارہی ہے تو وہ اسے فوراً قبول کرلے ۔ اگر عمران خان نے ایک نئے میثاق جمہوریت کی طرف جانے کی بجائے خود کو روز نیا سیاسی جوا کھیلنے میں مصروف رکھا تو اس کا یہاں اپنی مطلوبہ انتخابی فتح کو غیر متنازعہ تسلیم کرانا اور سب کے لیے قابل قبول حکومت بنانا کسی صورت ممکن نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button