Anwar Ul HaqColumn

سیاسی اور فوجی کمان میں تبدیلی .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ اداروں کو مضبوط و مستحکم کیا جائے لیکن عملی طورپر اداروں پر شخصیات غالب ہیں، اس شخصی غلبے کو ختم کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں، ہمارے ملک میں کوئی ادارہ جاتی سسٹم بن نہیں پا رہا، جہاں ادارے مستحکم نہیں ہونگے وہاں شخصیات کے آنے جانے سے بہت فرق پڑتا ہے فطری طور پر توقعات کی جاتی ہیں کہ کسی نئی شخصیت کی آمد سے ادارے کے طرز عمل اور پالیسیوں میں تبدیلی ہوگی، قوموں کے استحکام کا راستہ یہ ہوتا ہے کہ وہ طے کرتی ہیں آئندہ پندرہ بیس برس میں ہمارے اقتصادی منصوبے کیا ہونگے، سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا، ہماری خارجہ پالیسی کو کونسی مشکلات اور رکاوٹیں پیش آئیں گی، قومی منصوبہ بندی میں دنیا کی طرف سے پیش بندیوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، خطے میں برپا تنازعات اور سازشوں کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے، اپنے عظیم وطن کے حصوں میں آباد مختلف قومیتوں کی آرزوئوں اور محرومیوں کو بھی مختلف نسلی اور مذہبی اکائیوں کے جذبات کو، اگر ہم دور ماضی کو جائزہ لیں تو ہم شدت سے محسوس کریں گے کہ شخصیات اور اداروں نے جو حماقتیں کیں وہ قطعی طور پر قابل احتساب ہیں،اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کی ہے کہ دوبارہ وہ جانکاہ دن نہ دکھائے، سنہرا بنگال دکھی دل کے ساتھ یاد آتا ہے، جب ذلت و رسوائی ہمارے مقدر کا سیاہ نشان بن گئی تھی، یہ سال 1971 کا سال تھا، جب ہم ناکام ہوئے ہمارے زبردستی حکمران فوجی تھے، مارشل لاء قانون وقت تھا یحییٰ کی زیر نگیں ملک سسکیاں لے رہا تھا، ہم لیگل فریم ورک آڈر کے آسیب میں مقید تھے، ملک میں کوئی آئین نہیں تھا جو سانحات اور واقعات ظہور پزیر ہوئے ان پر درجنوں آپ بیتیاں ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں،حمود الرحمان کمیشن رپورٹ دیمک زدہ ہو گئی ہے کیا کسی سول اور فوجی حکومت نے 1971ء سے اب تک کیا کوئی سبق سیکھا ہے، پارلیمنٹ سب سے بالاتر ادارہ ہے اس نے 1972ء سے اب تک کبھی زحمت کی کہ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کھل کر بحث کی جائے کہ اس میں کیا کیا اور کن کن لوگوں اور اداروں نے غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا،اور آئندہ ان سے گریز کرنے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، اب ہم نئے سپہ سالار کے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس وقت سوشل میڈیا اپنے عروج پر ہے، موجودہ حالات میں پاکستان کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت کے بارے میں پھیلائی گئی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ کیلئے قومی سطح پر ایک مستقل لائحہ عمل مرتب کیا جائے، پارلیمانی طرز حکمرانی کے ہم سب قائل ہیں اور اس کو ملک میں کامیاب کرنے کے خواہش مند ہیں ،لیکن کیا ہمارے مزاج پارلیمانی نظام کی نزاکتوں کو اور نتائج کو قبول کرتے ہیں، پارلیمان نظام کی روح عوام کی اکثریت کی بالا دستی ہے، آئین و قانون کے تحت قواعد و ضوابط مرتب کئے جاتے ہیں، اس نظام میں تحریک عدم اعتماد سے پالا بھی پڑتا ہے، ضمنی انتخابات کا ناقوس بھی بجتا ہے، اسمبلیوں کو تحلیل بھی کیا جاتا ہے، ان تمام معاملات کو معمول کی کارروائی کیوں نہیں سمجھا جاتا، سیاسی ہل چل سے معیشت کیوں بری طرح متاثر ہو جاتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کی ہمارا مزاج پارلیمانی نہیں ہے ہم اپنے آپ کو فاتحین اور بادشاہوں کے وارث سمجھتے ہیں، ہمارے دلوں میں شخصیت پرستی کا ناسور تناور درخت بن چکا ہے اندر سے قدیم صدارتی نظام کے حامی ہیں، تحریک عدم اعتماد پر امن طریقے سے کیوں نہیں ہو سکی، اکثریت کو دباؤ اور مداخلت سے کیوں ہٹایا گیا، ارکان اسمبلی کی بولیاں کیوں لگیں، عمران خان تحریک عدم اعتماد کی مزاحمت اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے کی یا ملکی استحکام کیلئے، عمران خان کے معیشت کے بارے میں خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں، اپریل سے دسمبر آگیا ہے، لیکن اتحادی حکومت سے معیشت سنبھلتی نظر نہیں آ رہی ہے، ملک میں انتشار اپنے جوبن پر ہے۔
جہاں جہاں پر وفاقی حکومت کے اتحادیوں کے صوبائی حکومتیں برسر اقتدار ہیں وہاں پر سندھ اور بلوچستان میں مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے، جرائم چوری چکاری قتل و غارت گری کے شرح میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے،عمران خان کے پاس چارصوبائی حکومتوں کی باگ ڈور ہے وہاں زندگی میں بہاریں لانے کیلئے کیا لائحہ عمل مرتب کیا گیا ہے،موجودہ حالات سے نکلنے کیلئے ہر سیاسی جماعت ہر لازم ہے کہ وہ اپنا انتخابی منشور کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کرے کہ ملک کو معاشی، سیاسی، سفارتی اور اخلاقی بحران سے نکالنے کیلئے اس کے پاس کیا لائحہ عمل ہوگا، آئندہ ان کے شیڈو کیبنٹ کن افراد پر مشتمل ہو گی، عالمی ادارے ہمیں خبردار کر رہے ہیں آبادی کا طوفان پاکستان کے وسائل کو ہڑپ کر جائے گا، بے روزگاری میں اضافہ ہوگا غربت کی لکیر کے نیچے کروڑوں لوگ آہ و سسکیاں لیں گے، موسمیاتی تبدیلی کا عفریت بھی ہمارے سروں پر منڈ لا رہا ہے، ہمارے سیاسی قائدین اور پیروکار مستقبل کی زلفیں سنوارنے کیلئے کچھ بتانے کیلئے تیار نہیں ہیں، شاید اقتدار کا لطف و سرور ہی ان کی منزل ہے۔
فوجی قیادت جب تبدیل ہوتی ہے تو جانے والے تجربہ کار سپہ سالار آنے والے سپہ سالار کو حالات و واقعات سے آگاہ کرتا ہے زبانی اور تحریری طور پر، سیاسی تبدیلی کے عمل میں پارلیمانی میں ہونے والی بحث سب کو سیکھنے کا موقعہ فراہم کرتی ہے، لیکن ہمارے ہاں جب اقتدارکی سیاسی تبدیلی ہوتی ہے تو جانے والا آنے والے کو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے، اس دفعہ جب جانے والے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے نئے آنے والے آرمی چیف عاصم منیر کو چھڑی پیش کی اور آگے بڑھ کر معانقہ کی کوشش کی تو نئے آرمی چیف نے غیر جذباتی انداز میں رد عمل کا اظہار کیا، نئے آرمی چیف عاصم منیر کو خوش آمدید کہنے کیلئے پوری قوم تیار ہے، عمران خان نئے آرمی چیف کی تقرری پر مبارک دیتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے تقریر کا حوالہ دیا ہے، جس میں انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ پالیسیاں بنانا سول حکومت کا کام ہے اور فوج عوام کی ملازم ہے۔
جناب سپہ سالار عاصم منیر صاحب! آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ کے بخوبی علم میں ہے کہ ہماری قوم عرصہ دراز تک جسمانی اور ذہنی غلامی کے دور میں پابند سلاسل رہی ہے، ہماری اشرافیہ بالخصوص کاسہ لیسوں اور پرلے درجے کے خوشامدیوں پر مشتمل ہے، ہر جانے والا ان کیلئے انتہائی مبغوض ہوتا ہے اور ہر آنے والا ان کے نزدیک تمام تر خوبیوں کا مالک ہوتا ہے، امید کامل ہے کی اپ یقینی طور پر غیر ملکی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں گے لیکن ان مفاد پرستوں، کاسہ لیسی کرنے والے کے لوگوں سے بچنا انتہائی مشکل ہے، ہمدردوں اور خیرخواہی کے روپ میں یلغار کرنے والوں سے محفوظ رہنا ناممکن ہوگا، بہت جلد یہ لوگ آپ کو یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے آپ کے ہاتھ کی چھڑی عصائے موسیٰ ہے اور معجزات عیسیؑہے آپ کے متعلق بشارتوں خوابوں، تعبیروں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا، یہ آپ کے خیالات و نظریات کو ایک وجدانی وجود بخش دیں گے، آپ کو احساس دلانے کی مسلسل کوشش کریں گے کہ آپ اقبالؒ کے شاہین ہیں، نرگس آپ کے ہی لئے ہزاروں سال آہ و بکا کرتی رہی ہے جب آپ کے مدت ملازمت ختم ہونے کے قریب آئے گی تو آپ کو یقین دلائیں گے آپ ہی کی برکت سے نظام حیات چل رہا ہے ملک آپ کے وجود مسعود کے بغیر ادھورا ہے، سب طبلہ نواز اور سارنگی ساز بھجن گائیں گے آپ کے بغیر چاند چاندنی سے محروم ہو جائےگا بہاریں آزردہ ہو جائیں گی آبشاریں خشک ہو جائیں گی ،ملکی کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں غیر محفوظ ہو جائیں گی، لیکن آپ نےقائد اعظمؒ کے فرمان کو اپنا مقصد حیات بنانا ہے اور آئین و قانون کے تابع رہ کر اپنے کردار کی رفعتوں کو پانا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button