ColumnNasir Sherazi

بڑا جھٹکا ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد اب ماضی بن گئے ہیں، ان کا چھ سالہ عہد تلخ و شیریں یادوں سے بھرا پڑا ہے۔ جس میں 2018 کے انتخابات ہوئے اور عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات جھرلو انتخابات کہلاتے ہیں لیکن 2018 میں جو کچھ ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تمام اپوزیشن جماعتوں اور ان کے سربراہوں نے کہا کہ مینڈیٹ چرایاگیا ہے لیکن ڈکیتی میں معاونت کرنے والوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی اس جمہوری عمل کے کرشمے ہر روز نئی آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کو ملتے رہے، ایک سیاسی شخصیت اور ان کا ہوائی جہاز بہت متحرک تھا مختلف سیاسی جماعتوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر سیاسی شخصیات تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکررہی تھیں ان کے اس عمل کو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے سے تعبیر کیا جاتا جبکہ تحریک لبیک والوں کے ہر عمل کو سازش اور جمہوریت دشمنی سمجھا جاتا۔ تحریک انصاف کے پونے چار برس کے اقتدار کو 440وولٹ کا پہلا جھٹکا ملا تو جمہوری جسد یوں بے جان نظر آیا جیسے اس میں کبھی جان تھی ہی نہیں اس کے بعد اقتدار دلانے والوں نے ضمیر کی آواز بلند ہونے پر قریباً کئی سو نفوس کی موجودگی میں اقرار کیا کہ انہوںنے معاونت بھی کی اور جسد جمہوری کو وقت نزع آنے پر گلوکوز کی بوتلیں اور طاقت کے ٹیکے بھی لگائے۔
اس سے قبل جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا وقت آیا تو عمران خان نے وزیراعظم ہوتے ہوئے آن دی ریکارڈ بتایا کہ ہم نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ وقت آنے پر ہم انہیں توسیع دیں گے ، ان کے اس بیان سے کئی رازوں سے پردہ ایسا اٹھا کہ پھر کسی چیز پر پردہ نہ پڑ سکا۔
خدانے عمران خان کے مقدر میں لکھا تھا کہ وہ ایک آرمی چیف کا تقرر کرسکتے ہیں انہوں نے جنرل باجوہ کو توسیع دے کر یہ موقعہ گنوادیا اس کے بعد وہ ضدی بچے کی طرح اس حوالے سے دوسری باری لینے کے لیے حربہ استعمال کربیٹھے لیکن انہیں ناکامی ہوئی، دوسری طرف انہوں نے الزام لگایا کہ ان کی حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ختم کی ہے۔ اگر ان کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جنرل باجوہ کو موقعہ ملا تو انہوں نے اسے ضائع کرنے کی بجائے خان حکومت کا جھٹکا کردیا۔ عمران خان نے سب کچھ کھودینے کے بعد بگڑے تعلقات کو ازسرنو استوار کرنے کے لیے یہ الزام واپس لیا لیکن جو نقصان وہ اپنی سیاسی نادانی سے کرچکے تھے اس کا ازالہ نہ ہوسکا، ان کے سیاسی مخالفین کی زبان میں یوں کہ خان صاحب اب حلالہ چاہتے تھے لیکن اپنی شرائط اور اپنے طریقے سے، شرعی طریقے سے نہیں، دست شناسی اور ہاتھ کی لکیروں کا علم رکھنے والے کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے ہاتھ میں دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کی لکیر تھی پس ان کے دور میں پہلے نوازشریف پھر عمران خان حکومت کا جھٹکا ہوگیا۔ عمران خان صاحب نے اقتدارکھودینے کے بعد دیگرے متعدد مواقعوں پر اعلان کیا کہ وہ ایک سرپرائز دیں گے وہ تاریخ پر تاریخ دیتے رہے اپنے فیصلے ملتوی کرتے رہے پھر جب کسی فیصلے کا اعلان کیا تو اس کا فائدہ ہونے کی بجائے اس کا نقصان ہوا۔
چیئرمین تحریک انصاف کا آخری مرتبہ سرپرائز دینے کا اعلان صوبائی اسمبلیوں سے باہر آنے کے حوالے سے ہے۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ اس اعلان کے اگلے روز اپنی صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دیتے لیکن انہوں نے اس حوالے سے اپنے اتحادی ساتھیوں اور پارلیمانی جماعتوںو کمیٹیوں سے مشاورت کے بعد حتمی اعلان کرنے کا کہا ہے۔ وہ یہاں بھی سیاسی غلطی کرگئے ہیں یہ مشاورت پہلے ہونی چاہیے تھی اس کے بعد اعلان کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ اعلان کے بعد مشاورت اور پھر صوبائی اسمبلیوں سے باہر نہ آنے کا فیصلہ کیا گیا تو ان کی سیاسی جماعت اور سیاسی بصیرت کیلئے ایک اور جھٹکا ہوگا۔
عمران خان اقتدار کھودینے کے بعد سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں تین یکے، تین بادشاہ، تین بیگمات اور تین غلام ہیں مگر شومئی قسمت انہوں نے جب بھی کوئی پتا پھینکا اس کی طاقت دُکی (2)سے زیادہ نہ نکلی البتہ اس بات کی تصدیق ایک زمانہ کرتا ہے کہ ان کے پاس تین بیگمات اور تین غلاموں کی بجائے تیس غلاموں کی طاقت تو موجود ہے لیکن جب ان پر مزید کڑا وقت آیا تو ان کے تیس غلام حقیقی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور حقیقی آزادی کو گلے لگانے کے لیے جس تیز رفتاری کا مظاہرہ کریں گے اس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ اس عمل کو کچھ لوگ ضمیر جاگنے اور کچھ لوگ ضمیر فروشی قرار دیں گے۔ سیاسی دست شناس ان کی چوتھی بیگم کی خبر دے رہے ہیں۔
امریکہ کو جلسہ عام میں للکانے کے بعد امریکہ کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تب تک خانگی ہدایت پر ان کے متعدد ساتھی امریکی سفیر سے ملاقاتیں کرکے روٹھے سیاں کو منانے کی کوشش میں لگے ہیں جبکہ سیاں جی نے کسی اور کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھادی ہیں۔ اب تو وہ موسم بہار نہ ہونے کے باوجود گنگناتے نظر آتے ہیں۔
آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آجا بالما
شیر کو جنگل کا بادشاہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ شیر کو حق حاصل ہے وہ انڈا دے یا بچہ دے لیکن شیر نے عجیب وطیرہ اختیار کررکھا ہے وہ کہتا ہے میں اس مرتبہ انڈا دوں گا، وقت مقررہ پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود انڈا نہیں دے سکا، پھر شیر اعلان کرتا ہے وہ بچہ دے گا، شیر کے چاہنے والے بچے کے انتظار میں رت گن گن کر گذارتے ہیں اور عین ٹائم پر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ شیر بچہ دینے سے قاصر ہے، شیر کو چاہیے اب وہ کوئی اعلان نہ کرے، دھاڑنا بھی بند کردے، زبان تالو کے ساتھ لگائے، اسے اس عمل سے فائدہ ہوگا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ جاتے جاتے بریکنگ نیوز دے گئے ہیں من پسند صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایاگیا تھا کہ ہمارے پاس دو سو مختلف شعبوں کے ماہرین ہیں جو ملک کی کایا پلٹ دیں گے جب ہم نے دیکھا کہ ان کے پلے کچھ نہ نکلا تو ہم نے پی ڈی ایم کو لانے کی غلطی کی وہ بھی صرف باتیں ہی کرتے نظر آئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ ماہ لاہور گریژن میں فوجی افسروں سے جو خطاب فرمایا اُسے ان کی طرف سے کفارہ اداکرنے کی کوشش کہا جاتا ہے لیکن آخری گفتگو میں انہوں نے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم دونوں کی نہ صرف منجی ٹھوکی ہے بلکہ منجی کے نیچے ڈانگ بھی خوب خوب پھیری اور واضح کیا کہ اس کے نیچے بھی کچھ نہیں ہے۔ دونوں کے لیے یہ بڑا جھٹکا ہے وہ دونوں سے ناراض ہوگئے ہیں، وجوہات کوئی راز نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button