Editorial

سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت

 

وطن عزیز میں سیاسی بے یقینی نے پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کیا ہوا ہے اور ہرنیا دن نئے مسائل اور مزید اضطراب کے ساتھ طلوع ہورہا ہے۔ سیاست دانوں کی اولین ترجیح سیاست بنی ہوئی ہے اورعوام درپیش مسائل کی خاک اپنے ہی سر میں ڈالنے پر مجبور ہے، عامۃ الناس اور کیا کریں کہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں کیونکہ جنہیں مسائل کے حل کے لیے منتخب کیا تھا وہ فی الحال سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ سیلاب متاثرہ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، معاشی بے یقینی سے بے روزگار ی میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ نئے روزگار کا تو امکان ہی ختم ہے۔ آنے والے دنوں، مہینوں یا سالوں میں ملک کیسے چلے گا بظاہر سمجھ سے باہر ہے مگر پھر بھی اِس خطرناک صورت حال میں کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں۔ ہم پاکستانی اتنی مجبور و لاچار قوم ہے کہ جب بھی ہمیں روٹی، کپڑا، مکان اور خوشحالی کا لالچ دیا جاتا ہے ہم فوراً سچ مان لیتے ہیں اور انہیں ہی مسیحا سمجھ کر مینڈیٹ دے دیتے ہیں۔ ووٹرز کے سیاسی پارٹیوں پر اعتماد اور پھر وعدہ خلافی پر عدم اعتماد کے باوجود آج بھی پاکستانی روٹی، کپڑا اور مکان کے خواب دیکھتے ہیں۔ بر صغیر کی سیاست میں سیاست دان ووٹرز کو لبھانے کا فن بخوبی جانتے ہیں لہٰذا جنوبی ایشیا کے موجودہ حالات، پسماندگی ، صحت و تعلیم اور ترقی جیسے مسائل آج بھی موجود ہیں دوسری طرف جن اقوام نے سلیقے سے قوم کی خدمت کی وہ آج تاروں پر کمند ڈالے نظر آتے ہیں اور انتہائی افسوس کہ ہم اُن کے سامنے ہمہ وقت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں، ہمارا زرعی ملک خوراک درآمد کرنے پر مجبور ہے، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمیں غیر ملکی بینکوں سے قرض لینا پڑتا ہے کیونکہ نظام مملکت بھی چلانا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان اور مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے درمیان بات چیت کسی وسیع تر معاہدے کے بغیر تعطل کا شکار ہے اور اس کے نتیجے میں نویں جائزے کی تکمیل اور آئندہ مالی سال کے لیے ایک ارب ڈالرز کی قسط کے اجرا میں تاخیر ہوگی، کیونکہ پاکستان کی معاشی ٹیم اورآئی ایم ایف کے حکام اب تک کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے اور مکمل طور پر خاموشی چھائی ہوئی ہے ، لہٰذا پاکستان کو دسمبر کے پہلے ہفتے میں نواں جائزہ مکمل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی اور اگلے سال جنوری میں آئی ایم ایف کا بورڈ پاکستان کے لیے اگلی قسط کی منظوری دے گا۔ دوسری طرف وزارت خزانہ نے اِسی تسلسل میں اپنی پوزیشن کو بہترظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے ملک سے اخراجات میں کمی لانے کو کہا ہے۔ پس ایک طرف عوام بے حد مہنگائی اور بے روزگاری سمیت درجنوں بنیادی مسائل سے دوچار ہیں تو دوسری طرف آئی ایم ایف سے قسط بھی تاخیر کا شکار نظرآرہی ہے پس اِن تمام چیلنجز کے باوجود ملک میں سیاست اپنے عروج پر ہے عین ممکن ہے کہ آئی ایم ایف ہماری سیاسی قیادت کی انتہائی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں کسی مشکل میں ڈالے بغیر قرض کی نئی قسط دے دے، متذکرہ تمہید کا مقصد ظاہر ہوچکا اور موضوع انتخاب بھی، کیونکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے مشاورتی اجلاس میں پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی گئی جبکہ دوسری جانب حکمران اتحاد نے پنجاب اسمبلی بچانے کے ممکنہ راستوں اور امکانات پر غور شروع کردیا ہے اور عزم ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل روکنے کے لیے سیاسی، قانونی آپشنز استعمال کئے جائیں گے اور بلاشبہ اِس معاملے پر حکومت کے اپنے اتحادی سیاست دانوں سے رابطے اور مشاورت بھی جاری ہے جس کا واحد مقصد صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے بچانا ہے جو بظاہر ممکن نہیں مگر سیاست دان کسی کا بھی قبلہ بدلنے کی بخوبی صلاحیت رکھتے ہیں چونکہ وہ نفسانی خواہشات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اِس لیے ہر مرض کی دوا سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف رواں ہفتے یا دسمبر کے اوائل میں دونوں اسمبلیاں پنجاب اور خیبر پختونخوا تحلیل کرنے پر متفق ہوچکی ہے جبکہ حکمران اتحاد کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہے جو بظاہر ویسا ہی ہوسکتا ہے جیسا رواں سال قومی اسمبلی میں تبدیلی لانے کے لیے استعمال کیاگیا تھا۔ تمام ذرائع ابلاغ کے ہر پنے پر ایک ہی موضوع نظر آتا ہے جس پر ہم اِس وقت بات کررہے ہیں کیونکہ ہر طرف یہی معاملہ زیر غور ہے اور سیاست ہی عروج پر ہے، مگر جن بنیادی مسائل اور ملکی صورتحال سے ہم نے تمہید کا آغاز کیا تھا وہ سیاست دانوں کی زبان سے سنی نہیں جارہی۔ غیر جانبدار لوگ یہی کہتے ہیں کہ عام انتخابات کا اعلان ہوجائے تو سیاسی بحران اور عدم استحکام ختم ہوجائے گا مگر خدشہ تو پھر بھی لاحق رہے گا کہ انتخابی نتائج تسلیم کون کرے گا کیونکہ ماضی یہی دکھاتا اور بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا مینڈیٹ ہی نہیں بلکہ وجودبھی تسلیم نہیں کرتے لہٰذا ملکی معاملات درست پٹڑی پر تب ہی آئیں گے جب سیاست کی بجائے ریاست کی ہمہ وقت بات ہوگی اور جو ، جوڑ توڑ اقتدار گرانے اور بچانے کے لیے کیا جارہا ہے ویسا ہی جوڑ توڑ عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی مسائل سے بچانے کے لیے کیا جائے گا۔ سیاست دان خوب ڈٹ کر سیاست کررہے ہیں ہر دائو پیچ آزمایا جارہا ہے لیکن گذارش یہی ہے کہ تھوڑا ساوقت ریاست کو درپیش چیلنجز کے لیے بھی نکالیں کیونکہ ضد اور انا کا نتیجہ ہمیشہ برا ہی نکلتا ہے۔ عوام کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے بھی کچھ کریں اور انہیں احساس دلایا جائے کہ ریاست پر سیاست ترجیح نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button