ColumnRuby

سیاسی اونٹ کی کروٹ .. روبی رزاق

روبی رزاق

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا ایک ماہ جاری رہنے والا لانگ مارچ وفاقی حکومت کا خاتمہ تو نہ کرسکا لیکن عمران خان نے مارچ کے آخری رو ز ایک ایسا پتا کھیلا جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاہے ۔پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد عمران خان ملکی سیاست کا محور بن گئے ہیں اور اس وقت سیاسی وسماجی حلقوں میں تمام نظریں عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کی منتظر ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف تمام صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے گی یا عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہتے ہیں اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہوجائے گا ۔
عمران خان نے اسلام آباد نہ جاکرحکومت، سٹیٹ اور اپنے ورکروں کو آزمائش میں نہیں ڈالا، سیاسی حلقے عمران خان کے اس فیصلے کو دانشمندانہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعدنگران حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہوگی وزیراعلیٰ بھی ان کا ہوگا جو آئندہ انتخاب میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔پنجاب میں اگرنگران حکومت بھی آتی ہے تو وزیراعلیٰ پی ٹی آئی کا ہی ہوگا، الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد بروقت الیکشن کرادیا جاتا ہے توبلاشبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی مضبوط حکومت بن سکتی ہے ۔عمران خان کی لاہور میں واقع رہائش گاہ زمان پارک میں اس سلسلے میں گرما گرم بیٹھکیں روزانہ کی بنیاد پر سج رہی ہیں اور پی ٹی آئی کی تمام مرکزی قیادت سر جوڑ کر مشاورت میں مصروف ہے ۔دوسری جانب مسلم لیگ نون نے بھی پنجاب کو بچانے کے لیے ہر حربہ آزمانے کی ٹھان لی ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کی ذمہ داری سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو سونپ دی ہے ،جو وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔مسلم لیگ نون پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے آخری حد تک جائے گی اور آج یا کل حمزہ شہباز مختلف ڈویژنزکے اراکین اسمبلی کو بلاکر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرارہے ہیں ۔ مسلم لیگ نون گزشتہ کچھ عرصے سے گورنر راج لگانے کی بھی تیاریوں میں تھی لیکن چودھری پرویز الٰہی کی دانشمندی آڑے آگئی ۔وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی جو ایک زیرک سیاستدان ہیں، انہوں نے پنجاب میں گورنر راج لگانے یا وزیراعلیٰ کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کے خطرے کو بھانپتے ہوئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ماہ جولائی سے اب تک جاری رکھا ہےاور آئین کے مطابق پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران نہ تو وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ہی صوبے میں گورنر راج لگ سکتا ہے ۔
پنجاب میں تحریک عدم اعتماد دو صورتوں میں ہی کامیاب ہوسکتی ہے یا تو وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی اپنے اراکین کے ساتھ مسلم لیگ نون کے ساتھ مل جائیں یا پھر تحریک انصاف کے اراکین کی ایک بڑی تعداد پارٹی قیادت کے فیصلے کے خلاف بغاوت کردے اس کے علاوہ نمبر گیم میں مسلم لیگ نون پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں کرواسکتی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62,63 پرصدارتی ریفرنس کی تشریخ کے بعد فلورکراسنگ ممکن نہیں رہی اور اگرمسلم لیگ نون، تحریک انصاف میںکوئی نیا فاروڈبلاک بنانے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو بھی مسلم لیگ نون کوکوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ ووٹ دینے والے اراکین صوبائی اسمبلی ماضی کی طرح نااہل ہوجائیںگے۔ مسلم لیگ نون اور ان کے اتحادیوں کے پاس اس وقت سادہ اکثریت بھی نہیں ہے 371کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 186ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ اس وقت نون لیگ کے پاس 166ووٹ بچے ہیں اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے7 راہ حق پارٹی کا ایک اور5 آزاداراکین کی حمایت حاصل ہے مجموعی طور پر یہ تعداد179بنتی ہے۔ نون لیگ کو صرف ایک ہی صورت میں پنجاب کا تحت واپس مل سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ قاف کو ساتھ ملاکران کے 10ووٹ حاصل کرلے جو بظاہر ممکن نظرنہیں آرہا۔
نمبر گیم میں 180ووٹوں کے ساتھ تحریک انصاف اس وقت پنجاب اسمبلی کی نمایاں اکثریتی جماعت ہے اگر مسلم لیگ نون گورنرپنجاب کے ذریعے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہتی ہے تو ان کے ووٹوں میں اضافہ ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت جولائی میں ہونے والے وزیراعلیٰ کے انتخابات میں تحریک انصاف کے نااہل قرارپانے والے 25اراکین کے ووٹ شامل نہیں تھے ۔ایک طرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کے پاس 190 ووٹوں کی واضح اکثریت ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو179اراکین کی حمایت حاصل ہے اور آئین کے مطابق وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کے48گھنٹوں کے اندر گورنر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا پابند ہے۔ مسلم لیگ نون کا تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے اعلان کا مقصد وزیراعلیٰ کو ایڈوائس ارسال کرنے سے روکنا ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کی صورت میں وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست نہیں دے سکتا۔ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے فیصلہ رواں ہفتے متوقع ہے جس کے بعد سیاسی صورتحال کھل کر سامنے آجائے گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button